ایمانداروں کی حکومت میں کرپشن بڑھ گئ
دنیا میں بدعنوانی پرنظر رکھنے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرینسی انٹر نیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کرپشن کے لحاظ سے16درجے تنزلی کے بعد 180ممالک کی فہرست میں140ویں درجے پر آ گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور ریاستی گرفت کی عدم موجودگی سے پاکستان کے سی پی آئی سکور میں 16درجے کی نمایاں کمی ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بہتر ممالک کی فہرست میں نیوزی لینڈ کا پہلا نمبر ہے جس کا سکور 88 ہے ناروے سنگا پور اور سوئیڈن 85پوائنٹ کے ساتھ دوسرے اور سوئیزرلینڈ 84 سکور کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔اس لحاظ سے بھارت کی پوزیشن بھی ہم سے بہتر ہے جس کا سکور 40 جبکہ پاکستان کا اسکور 28ہے۔یوں دنیا کے کل ممالک میں پاکستان کی پوزیشن صرف 40ممالک سے بہتر ہے جو ایک ایٹمی صلاحیت کے حامل اور عالم اسلام کی نمائندگی کرنے والے پاکستان کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے عالمی انڈیکس میں پاکستان کا سکور مسلسل کم ہو رہا ہے۔2019میں پاکستان کا سکور 120اور 2020میں 124جبکہ 2021میں یہ سکور ریکارڈ سطح پر 140تک جا پہنچا ہے۔2018میں جب نواز شریف کی حکومت تھی تو اس وقت یہ سکور 116پوائنٹ تھا۔ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ تحریک انصاف کی حکومت پر ایک زوردار طمانچہ ہے جو ملک سے کرپشن کے خاتمے کا بھر پور پرچار کرتی رہی ہے ۔
تحریک انصاف کا منشور اور ایجنڈا ہی ملک سے کرپشن اور بد عنوانی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا تھا۔عمران خان آج بھی ببانگِ دہل یہ دعوی کرتے ہیں کہ پاکستان 1961تک بہت ترقی کر رہا تھا بلکہ یہ دنیا کو قرضے فراہم کرتا تھا وہ اسکی وجہ اس وقت ملک میں کرپشن رائج نہ ہونا بتاتے ہیں۔عمران خان کے نزدیک ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ہی اس ملک کا بیڑاغرق کیا ہے جن کا منشور اور ایجنڈا صرف اور صرف کرپشن ہے اور یہ جب بھی اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے نہ صرف اپنی ذاتی تجوریاں بھری ہیں بلکہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک اثاثے بنائے ہیں۔
عمران خان نے الیکش سے قبل یہی نعرہ لگایا کہ وہ اقتدرار میں آکر دونوں پارٹیوں کا لوٹا ہوا پیسہ ملک میں واپس لا کر قومی خزانے میں جمع کرائیں گے جس سے نہ صرف پاکستان میں معاشی خوشحالی آئے گی بلکہ آئندہ بھی یہاں ہمیشہ کیلئے کرپشن کا باب بند ہو جائے گا۔انکا دعوی تھا کہ میں کرپشن کرنے والوں کو عبرت کی مثال بنا دوں گا اور آئندہ یہاں کوئی کسی کا ایک پیسہ چراتے ہوئے خوف کھائے گا۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج عمران خان کی حکومت کو آئے ہوئے ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ بیت چلا ہے مگر لوٹا ہوا ایک پیسہ بھی قومی خزانے میں واپس نہیں آیا۔
ملک میں معاشی خوشحالی تو درکنار الٹا ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ آج ڈالر ریکارڈ سطح 180کے قریب پہنچ چکا ہے جسکے بڑھنے کا بھی مزید امکان ہے۔ملک کی شرح نمو خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ معاشی اعشاریے بر ترین اقتصادی صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں ۔آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اسٹیٹ بینک مسلسل ملک کی خراب معاشی صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں مگر ایک عمران خان اور انکے وزراء ہیں جو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے مستحکم معیشت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور ملک میں کمر توڑ مہنگائی کے باوجود پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
حکومت کا کرپشن کا بیانیہ بھی دم توڑ چکا ہے۔دوسال قبل ق لیگ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے ببانگ دہل کہا تھا کہ تحریک انصاف حکومت کے آنے سے ملک میں کرپشن کے ریٹس بڑھ گئے ہیں۔اس سے قبل جو کام دس ہزار روپے میں ہوتا تھا وہ اب چالیس ہزار میں ہوتا ہے۔ اس حکوت میں چینی اور گندم کا بحران پیدا کر کے اربوں روپے ڈکار لئے گئے۔چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران برطرف ہونے والے افسر کا وہ انکشاف آج بھی حکومت کا منہ چڑا رہا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ وزیراعظم سمیت چند اعلی حکومتی شخصیات نے شوگر مل مالکان کو 400ارب روپے سے زیادہ کا فائدہ پہنچایا۔
چند ماہ قبل خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین کی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس میں پیسے وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور ایک رکن نے دعوی کیا تھا کہ یہ پیسے خیبرپختونخواہ اسمبلی کے اسپیکر کی نگرانی میں اور اسکے کمرے میں تقسیم کئے گئے تھے ۔اس ویڈیو کے نتیجے میں صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان نے استعفی دے دیا تھا۔
گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ نے بھی تحریک انصاف کی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچایا تھا جس میں بتایا گیا کہ عمران خان کی جماعت نے انتخابی ادارے سے 31کروڑ کی زائد رقم خفیہ رکھی اور درجنوں اکاؤنٹس بھی ظاہر نہیں کئے جس کے بعد ظاہر ہو گیا کہ تحریک انصاف اپنے بیرونی فنڈنگ کیس سے کیوں ہچکچا رہی تھا اور بار بار التوا کی درخواست کر رہی تھی۔
پانامہ اسکینڈل سے بھی زیادہ خطرناک اسکینڈل پینڈوارا پیپرز جسکو منظر عام پر آئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے اس پر بھی حکومت نے ابھی تک لاتعلقی اختیار کی ہوئی ہے کیونکہ اس میں سات سو پاکستانیوں کی بے نامی جائیدادیں رکھنے والوں میں اکثریت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہے۔اس لئے حکومت پانامہ کی طرح اس اسکینڈل میں وہ گرمجوشی نہیں دکھا رہی کیونکہ اس کے کھرے خود اس کی جماعت تک جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بی آر ٹی، مالم جبہ،بلین ٹری اور جہاز اسکینڈل جیسے کئی کیسز ہیں جن کو حکومت چلنے نہیں دیتی اور انکے آگے التواء کی کئی روڑے اٹکا رکھے ہیں جن کا اگر وقت پر فیصلہ ہو جائے تو نہ صرف تحریک انصاف پوری طرح بے نقاب ہو جائے گی بلکہ اس کا جنازہ بھی اٹھ جائے گا۔ عمران خان اور اس کی جماعت کے نزدیک کرپشن اور احتساب سے مراد صرف اپوزیشن ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے نیب اور ایف آئی اے کے ساتھ مل کر اپوزیشن کے خلاف وہ کریک ڈاؤن کیا ہے کہ اب اس ملک میں احتساب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ستم کی بات یہ ہے کہ حکومت ٹرانسپیرینسی انٹرنیشل کی رپورٹ کو بھی اپنے خلاف ایک سازش قرار دے رہی ہے۔ معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے یہ عادل گیلانی کی رپورٹ ہے جن کو نوازشریف نے سربیا میں سفیر مقرر کیا تھا اور اسے آپ شریف خاندان کی لکھی رپورٹ سمجھیں۔ حالانکہ انتخابات سے قبل یہی عمران خان تھے جو ٹرانسپرینسی کی ہر رپورٹ پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی خوب کلاس لیتے تھے اور انہیں مطعون ٹھہراتے تھے۔