سستے گھروں کی فراہمی کا آغاز ہو گیا

تحریک انصاف کی حکومت عوام کو سستے گھروں کی فراہمی کا وعدہ پورا کرنے جا رہی ہے، پرائم منسٹر پیری اربن ایفورڈ ایبل ہاؤسنگ پراجیکٹ کے تحت ساڑھے 17 لاکھ روپے کے عوض ساڑھے تین مرلے کا گھر ملے گا جبکہ یہ رقم بھی یک مشت ادا نہیں کرنی ہو گی بیس سال کے عرصے میں اقساط کی صورت دینی ہو گی جس کی ماہانہ قسط ساڑھے چھ ہزار روپے بنتی ہے جو کم آمدن والا ہر شخص بہ آسانی ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو گا، کم آمدن طبقے کو گھروں کی فراہمی کا آغاز اہم پیش رفت ہے اس لئے سیاسی اختلاف سے بالا ہو کر اس کی تحسین کی جانی چاہئے کیونکہ ذاتی گھر ہر شخص کی خواہش ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے تحریک انصاف کا منشور پیش کرتے ہوئے جب پچاس لاکھ گھر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تو مخالفین نے اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ایسا ہونا عملی طور پر آسان نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے تین سالہ اقتدار میں چونکہ گھر فراہمی کے وعدے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی تھی اس لئے ناقدین کے مؤقف کو تقویت ملتی رہی اور عوام کے ذہن میں یہ بات گہری ہوتی گئی کہ واقعی گھروں کی فراہمی آسان کام نہیں ہے تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے گزشتہ روز پرائم منسٹر پیری اربن ایفورڈ ایبل ہاؤسنگ پراجیکٹ کی قرعہ اندازی سے لگا جیسے دیرینہ خواب کو تعبیر ملنے والی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے مطابق پرائم منسٹر پیری اربن ایفورڈ ایبل ہاؤسنگ پراجیکٹ کیلئے 133 مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں سے 54 مقامات کا سروے مکمل ہو چکا ہے، نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (نیفڈا) نے پہلے فیز میں 32 سائٹس پر دس ہزار سے زیادہ ہاؤسنگ یونٹ بنانے کی سفارشات پیش کی ہیں۔ پنجاب حکومت کم آمدن افراد کو گھر فراہم کرنے کیلئے 10ہزار روپے فی مرلہ کے امدادی نرخ پر اربوں روپے کی قیمتی سرکاری زمین فراہم کر رہی ہے تاکہ اس منصوبے کو عملی شکل دی جا سکے۔

پنجاب حکومت نے سستے گھروں کی فراہمی کیلئے جو راستہ اختیار کیا ہے دیگر صوبوں کو بھی اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کی مخالفت میں جو احباب ہاؤسنگ پراجیکٹ پر تنقید کرتے ہیں وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اگر پراجیکٹ کیلئے سرکار اپنی طرف سے جگہ فراہم کر دے تو کم لاگت پر عوام کو گھروں کی فراہمی مشکل نہیں کام ہے، لیکن آج تک اس پر عمل نہیں کیا گیا ہے حالانکہ سرکار کی بہت سی جگہیں ایسی پڑی ہیں جن پر مختلف مافیاز نے قبضہ کر رکھا ہے اور سرکار کو بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کی جگہ پر کس کس نے قبضہ کیا ہوا ہے اگر ان قبضہ والی جگہوں کو ہی واگزار کرا لیا جائے تو بڑی تعداد میں لوگوں کو ذاتی فراہم کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح بہت سی جگہیں ایسی ہیں جو غیر اہم و غیر آباد ہیں دور دور تک ان کا کوئی استعمال دکھائی نہیں دیتا ہے، ایسی زمینیں زراعت کے قابل بھی نہیں ہیں، سرکار کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ کمپنیاں اسے اونے پونے خرید لیتی ہیں، چار کنال خریدتی ہیں تو دس کنال اضافی اراضی پر قبضہ جما لیتی ہیں پھر اس پر ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنا کر اسے مہنگے داموں عوام کو فروخت کرتی ہیں۔ یہ سب سرکار کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے کیونکہ سرمایہ دار سیاسی جماعتوں پر انوسٹ کرتے ہیں اور سیاسی جماعتیں اقتدار میں آ کر ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم عمران خان نے سستے گھروں کی فراہمی کا وعدہ کر کے سرمایہ داروں کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہے، کیونکہ جن سرمایہ کاروں نے ایک کروڑ کے ساتھ دس کروڑ کمانے ہوتے ہیں وہ کیونکر چاہیں گے کہ عوام کو سستے گھروں کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائے اور اس کی وجہ سے ان کی دکانیں بند ہو جائیں۔

کروڑوں عوام اپنے گھر سے محروم ہونے کی وجہ سے کرائے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں جس کے باعث ان کی آمدن کا بڑا حصہ کرائے کی نذر ہو جاتا ہے، جب ایسے افراد کو اقساط کی صورت اپنا گھر مل جائے گا تو ان کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ اپنی نوعیت کا واحد پراجیکٹ ہے جس سے معیشت بہتر ہو سکتی ہے، بیرونی ممالک میں معمولی مارک اپ پر گھر کا حصول نہایت آسان ہے، پندرہ سے بیس سال میں گھر کی اقساط پوری ہو جاتی ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں کمرشل بلڈنگ کرائے پر دینے کا رجحان ہے یا پھر ہوٹلوں میں سیاح ٹھہرتے ہیں، ہمارے ہاں لوگوں کو کوئی بزنس نہ ملے تو گھر بنا کر کرائے پر چڑھا دیتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں ریاست اپنے شہریوں کو گھر فراہم کرنے کیلئے بروقت اقدام اٹھاتی ہے حتی کہ جن بچوں کی شادیاں ہونے والی ہوتی ہیں ان کے گھر کا بندوبست پہلے ہی کر دیا جاتا ہے اور دلہا دلہن کے ساتھ نئے گھر جاتا ہے، اس کے برعکس ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کی بھی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کے پاس اپنا گھر نہیں ہوتا ہے تو مجبوراً انہیں والدین یا بڑے بھائیوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔

ریاست اپنی سرپرستی میں آسان شرائط پر ہر شہری کو گھر فراہمی کیلئے بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کا اقدام نہایت اہمیت کا حامل ہے، اگر وہ اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں یا انہیں توقع سے کم کامیابی حاصل ہوئی ہے تو کوئی بات نہیں، اس منصوبے کو آگے لے جانا ہر آنے والی حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ خدشہ ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو گی تو اس منصوبے کو بھی لپیٹ دیا جائے گا اگر ایسا کیا گیا تو بڑی بدقسمتی ہو گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button