دنیا نے افغان عوام کے فاقوں پر چپ سادھ لی!
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سے لے کر تاحال وہاں کے معاشی حالات سنبھل نہیں پائے ہیں، 31اگست 2021ء کو امریکی افواج کا انخلاء ہوا تو اس سے پہلے ہی افغان طالبان نے کابل پر قبضہ جما لیا تھا ، خیال یہ تھا کہ طالبان کی حکومت کو شروع میں مشکلات آئیں گی اور وقت کے ساتھ ساتھ دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گی ، تاہم حقیقت میں ایسا نہیں ہوا ہے، افغانستان میں طالبان کی عملی حکومت کو 5ماہ ہو چکے ہیں، اس دوران طالبان و عوام کے لیے مشکلات میں اضافہ کے سوا کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں میں افغانستان کی سردیاں شدید ہو جاتی ہیں کیونکہ اکثر علاقوں میں برفباری ہوتی ہے، افغان عوام سال بھر کی جمع پونجی لے کر اپنے گھر وں میں تقریباً محصور ہو کر سردیاں ختم ہو نے کا انتظار کرتے ہیں لیکن امسال سردیاں ایسے موقع پر آئی ہیں کہ طویل خانہ جنگی کو ختم ہوئے محض 5ماہ ہوئے ہیں، افغان عوام کے پاس ان مہینوں میں کھانے کے لیے چھ ماہ کا راشن تو کجا، تن ڈھانپنے کے لیے گرم کپڑے تک نہیں ہیں۔
اس دوران اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم (او آئی سی ) کا پاکستان کی میزبانی میں اجلاس ہوا، جس میں عرب ممالک سمیت دیگر مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی مگر اس کے باوجود اس قدر فنڈز جمع نہ ہو سکے جو افغان عوام کے لیے سردیوں کے سیزن میں کافی ثابت ہو سکیں۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان عوام کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کی مدد کرے۔ وزیر اعظم عمران خان نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ افغان عوام کو فوری انسانی ریلیف فراہم کرے، جنہیں شدید غذائی قلت کا سامنا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کو خبردار کرتے ہوے کہا ہے کہ اگر افغان عوام کی مدد نہ ہوئی تو وہ فاقوں سے مر جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اقوام متحدہ کے فراہمی تحفظ کے اصول (آر 2پی) کے تحت غذائی قلت کا شکار لاکھوں افغانیوں کو فوری انسانی ریلیف کی فراہمی ان کی ذمہ داری ہے ۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت افغان حکومت کو ساڑھے 4ارب ڈالرز کی اشد ضرورت ہے ، اگر فوری طور پر اس کا بندوبست نہ کیا گیا تو افغانستان کے 2کروڑ 30لاکھ لوگوں کو غذائی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال دنیا کے سامنے ہے، لیکن چونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ طالبان کی حکومت کے ساتھ کسی قسم کا تعاون ہو تو کسی کو جرأت نہیں کہ وہ امریکہ کی ناراضی مول لے کر افغان عوام کی مدد کرے۔ اس حوالے سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کی مخاصمت طالبان کے ساتھ ہے جبکہ افغان عوام کا معاملہ خالصتاً انسانی حقوق سے متعلق ہے حتیٰ کہ جب افغانستان میں خانہ جنگی کا دور تھا، اور امریکہ کی افواج افغانستان میں موجود تھیں تب بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں افغانستان میں کام کر رہی تھیں مگر جب سے امریکہ افغانستان سے گیا ہے انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اپنا کام روک دیا ہے، جو تنظیمیں کام کر رہی ہیں وہ بہت محدود ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جو مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیمیں تھیں وہ بھی افغان عوام کو مشکل وقت سے نمٹنے میں معاون ثابت نہیں ہو رہی ہیں، عرب ممالک کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ مل کر افغانستان کے لیے ساڑھے 4ارب ڈالر جمع نہ کر سکیں مگر چونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ عرب ممالک افغانستان کی مدد کریں تو وہ یہ قدم اٹھانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ وہ افغانستان کی مدد کرے ، پاکستان نے اپنے تئیں پہلے بھی افغانستان کی مدد کی ہے ، 5ارب روپے کی ابتدائی امداد پاکستان کی طرف سے جاری ہوئی تھی، لیکن چونکہ پاکستان کے معاشی حالات بھی درست نہیں ہیں اس لیے پاکستان مجبور ہے اور دنیا کی توجہ افغانستان کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس موقع پر اہل مغرب کا طرز عمل مایوس کن ہے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ انسانی حقوق کی بات کی ہے، لیکن جب افغانستان میں انسانی المیے کی بات کی جاتی ہے تو مغربی ممالک چپ سادھ لیتے ہیں، اس طرز عمل کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔ دنیا کو افغانستان کے معاملے پر دو رخی ترک کرنی ہو گی اور طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے بغیر افغان عوام کی مدد جاری رکھنی ہو گی۔ انسانی حقوق بلاتفریق خدمت کے متقاضی ہیں مگر افغانستان کے معاملے پر مغربی ممالک نے امریکہ کے کہنے پر تفریق کی لکیر کھینچ دی ہے، جس کے منفی اثرات آنے والے وقت میں مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک میں انسانی حقوق کے الگ الگ پیمانے کی صورت میں سامنے آئیں گے۔