سندس نےعثمان مرزا کیساتھ ڈیل میں کتنے پیسے لئے؟
سندس اور اس کے منگیتر نے عثمان مرزا سے ایک کروڑ روپے حاصل کئے اور عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا کہ وہ ویڈیو میں موجود شخص کو نہیں جانتے
چھ جولائی 2021کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس نے پورے پاکستان کو سوگوار کر دیا۔ویڈیو میں ایک بھاری بھرکم شخص اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایک نوجوان جوڑے پر بڑے بہیمانہ طریقے سے تشدد کر رہا ہوتا ہے۔لڑکے اور لڑکی پر تھپڑوں اور گھونسوں کی بارش کے ساتھ ساتھ وہ انہیں غلیظ گالیاں نوازتے ہوئے نظر آرہا ہوتا ہے۔
جبکہ لڑکا اور لڑکی دونوں اپنے آپ کو بیگناہ کہتے ہوئے اس سے رحم کی اپیل کر رہے ہوتے ہیں ۔بعد میں وہ ویڈیو میں دونوں کے کپڑے اتروا کر نہ صرف انہیں عریاں کر دیتا ہے بلکہ ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کرتا ہے۔ویڈیو کے آخر میں ملزم دونوں کو گڈ بائی بھی کرتا ہے۔اس اخلاق سوز ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ملک میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔
اپوزیشن نے اسکا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا دیا کہ ملک میں لاقانونیت کی وجہ سے آج ایک نہتا جوڑا کسی کے ظلم کا شکار ہوا اور یہ سب کچھ ریاست مدینہ کا راگ الاپنے والوں کے دور میں پیش آیا۔وزیراعظم عمران خان نے اس واقعہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی اسلام آباد کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد راولپنڈی اسلام آباد کے بائیس تھانوں کے ایس ایچ اوز جائے وقوعہ کی تلاش میں لگے رہے۔بالآخر تھانہ گولڑہ کے ایس ایچ او نہ صرف جائے وقوعہ تلاش کرنے بلکہ مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔6جولائی کو ایس ایچ او تھانہ گولڑہ نے انکشاف کیا کہ یہ واقعہ اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں پیش آیا جہاں مرکزی ملزم عثمان مرزا کا فلیٹ ہے جبکہ وہ اسلام آباد کے علاقہ آئی نائن میں ایک کار شو روم کا مالک ہے۔
ملزم نے پولیس کو بتایا کہ یہ اسکا اپارٹمنٹ تھا جسکی چابیاں اسکے کچھ دوستوں کے پاس تھیں ۔ایک شام وہ وہاں گیا تو یہ متاثرہ جوڑا ملا ۔اس نے نشے کا بھی اعتراف کیا کہ چونکہ وہ نشے میں تھا اس لئے اس نے ان دونوں پر تشدد کیا۔پولیس نے عثمان مرزا کی نشاندہی پر واقعہ میں ملوث اس کے باقی ساتھیوں حافظ عبدالرحمن،فرحان شاہین،حافظ عطاء الرحمن،محب بنگش اور ادریس قیوم بٹ کو گرفتار کر لیا۔
8جولائی کو متاثرہ لڑکی سندس نے تفتیشی افسر کے سامنے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ وہ ایف اے پاس ہے اور لاہور کی رہائشی ہے ۔اس کی منگنی گذشتہ سال اسد رضا نامی لڑکے سے ہوئی جو راولپنڈی میں رہتا ہے۔ وقوعہ کے روز وہ ایک نوکری کا انٹر ویو دینے لاہور سے اسلام آباد آئی تو اس نے اپنے منگیتر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ۔چنانچہ اس کے منگیتر نے اپنے ایک دوست سے اس اپارٹمنٹ کی چابی لی اور مجھے یہاں بلا لیا لیکن ہمیں علم نہیں تھا کہ یہاں ہمارے ساتھ اس طرح کا انسانیت سوز سلوک کیا جائے گا۔
سندس نے بتایا کہ کمرے میں موجود افراد اس کے جسم کو چھوتے رہے اور ساتھ ویڈیو بھی بناتے رہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ عثمان مرزا نے اسے اپنے منگیتر کے ساتھ جنسی عمل کرنے کو کہا اور ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی جائے گی۔لڑکی نے تفتیشی افسر کو بتایا کہ اس واقعہ کے بعد ان دونوں نے شادی کر لی۔تھانہ گولڑہ پولیس نے اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر کے کاروائی کی۔چنانچہ اسلام آباد کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطاء ربانی کی عدالت میں یہ کیس چلا ۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزموں نے متاثرہ جوڑے سے 6لاکھ 25ہزار روپے کا بھتہ بھی لیا اور انہیں دھمکی دی کہ اگر رقم نہ دی گئی تو سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیو چلا دی جائے گی۔عثمان مرزا ایک بندے کو متاثرہ جوڑے کے گھر بھیجتا تھا اور وہ رقم لے آتا تھا جسے وہ آپس میں تقسیم کرتے تھے۔عدالت نے 18جولائی کو متاثرہ جوڑے کو طلب کیا لیکن وہ پیش نہ ہوئے بلکہ مختلف عذر پیش کر کے تین مرتبہ عدالت سے مقدمے کی سماعت ملتوی کی درخوست کی۔جب جوڑا چوتھی مرتبہ بھی پیش نہ ہوا تو عدالت نے دونوں کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیئے۔
اس دوران میڈیا میں یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ دونوں فریقین کے درمیان ڈیل ہو گئی ہے۔بعض نے تو ایک کروڑ کی ڈیل کا دعوی کر دیالیکن ان دعوؤں اور افواہوں کو حقیقت کا رنگ اس وقت ملا جب 19جنوری کو متاثرہ جوڑے نے عدالت میں پیش ہو کر اس واقعہ سے مکمل لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔
دونوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ ویڈیو انکی نہیں ہے اور نہ انکے ساتھ اس طرح کا تشدد ہوا ہے۔جب تفتیشی افسر نے انہیں یاد کرایا کہ انہوں نے 8جولائی کو اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے خود اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا تو انہوں نے انجان بنتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کسی کو اپنا بیان نہیں دیا بلکہ انسپیکٹر شفقت نے ان سے سادہ کاغذ پر دستخط لئے تھے۔جب وکیل نے لڑکی سے کہا کہ ایف آئی کا عملہ کہتا ہے کہ ویڈیو میں آواز اور موجودگی آپکی ہی ہے تو لڑکی نے بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا کہ دنیا میں سات چہروں کے لوگ ایک طرح کے ہوتے ہیں ۔وکیل نے کہا کہ سات چہرے تو ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن آواز کیسے آپ کی ہے تو لڑکی نے جواب دیا کہ مجھے نہیں پتہ۔
یہ خبر ان لوگوں کیلئے ایک دھچکے سے کم نہیں جو عثمان مرزا جیسے درندہ صفت لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے تھے اور اسے انجام تک پہنچتا دیکھنا چاہتے تھے لیکن کیا کریں کہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہی یہی ہے کہ یہاں پیسے والے لوگ ہمیشہ انصاف خرید لیتے ہیں اور مظلوموں کو اپنی مٹھی میں بند کر کے آئین و قانون کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو ہمارا مظلوم طبقہ بھی اس ظلم میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہے جو حرص اور لالچ میں آکر نہ صرف ان کے ساتھ مک مکا کر لیتا ہے بلکہ انہیں اس جیسے کھلواڑ کرنے کا اور موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
آپ پیچھے نظر دوڑائیں تو آپ کو ہزاروں یسے واقعات نظر آئیں گے جن میں ظالموں کے خلاف عوام اور میڈیا نے مشترکہ جنگ لڑی اور ریاست کو ان کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور کیا اور جونہی ظالموں کے کیفرکردار تک پہنچنے کا وقت آتا ہے تو ہمارا مظلوم طبقہ خود انکے ہاتھ بک کر خود اپنے ہاتھوں انصاف کا گلہ گھونٹ دیتا ہے۔
شاہ رخ جتوئی کی مثال آپکے سامنے ہے جس نے دولت اور طاقت کے گھمنڈ میں نوجوان شاہزیب کو محض اس وجہ سے دن دیہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ اس نے اسکے ادنی نوکر کو اپنی بہن کے ساتھ چھیڑ خوانی سے منع کیا تھا لیکن جب سوشل میڈیا کے بھر پور دباؤ پر اس کے گلے کے گرد شکنجہ کسنا شروع ہوا تو اسی شاہزیب کی فیملی نے کروڑوں کے عوض ڈیل کر لی اور شاہ رخ جتوئی آج بھی جیل کی بجائے ہسپتالوں اور گھروں میں عیش و عشرت کی زندگی گذار رہا ہے۔ اسی طرح عثمان مرزا بھی جلد میڈیا کے سامنے وکٹری کا نشان بنا کر اپنے دوستوں سے داد وصول کر رہا ہو گا۔