کورونا فنڈز کہاں خرچ ہوئے؟
تحریک انصاف کی پوری عمارت کرپشن کے خلاف جنگ پر قائم ہے، عمران خان کی 22 سالہ سیاسی جد و جہد اور پارٹی منشور کرپشن کو ملک کیلئے خطرناک قرار دیتا ہے، تحریک انصاف کی لاکھوں حامی بھی اسی بنیاد پر عمران خان کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ کرپٹ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کرتے ہیں، اسی نعرے کے بنیاد پر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس چلا اور انہیں تاحیات نااہل قرار دیا گیا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کرپشن کے خلاف توانا آواز ہے اس کے برعکس دیگر سیاسی جماعتوں میں کرپشن کے خلاف اس قدر توانا آواز نہیں اٹھائی جاتی ہے، مگر المیے کی بات یہ ہے کہ جب تحریک انصاف کو حکومت میں آ کر موقع ملا کہ وہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر سکے اور جن رہنماؤں نے اعلیٰ مناصب کا فائدہ اٹھا کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ان کے خلاف کارروائی عمل میں لا سکے تو ناقدین کے مطابق تحریک انصاف بھی اپنے دامن کو بچا نہیں پائی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں متعدد بار تحریک انصاف کے رہنماؤں کے کرپشن ملوث پائے جانے کا شور کرتی رہی ہیں مگر مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وفاقی حکومت پر کورونا ریلیف فنڈ میں 40 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا الزام لگایا ہے۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کورونا سے متعلق فنڈز کا حکومت نے ریکارڈ فراہم نہیں کیا،کورونا فنڈکے 354 ارب میں سے 40 ارب روپے وفاق نے کھائے ہیں، وفاقی کابینہ نے اپنے ہی آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کورونا ریلیف فنڈ کا بھی ریکارڈ نہیں دیا گیا، آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کو پبلک نہیں کیا گیا،کورونا ریلیف فنڈ میں خیبرپختونخوا کے عوام کا خون نچوڑا گیا، خیبرپختونخوا کورونا ریلیف فنڈ میں 36 کروڑ 60 لاکھ کی ادائیگیوں کا ریکارڈ نہیں ہے۔ ترجمان مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ صحت کارڈ پر اپنی تصویر لگا کر عوام کو صحت سہولیات نہیں ملتی، بی آرٹی پشاور پر پوچھا جائے تو حکم امتناع کے پیچھے چھپا جاتا ہے، چار لاکھ آر ایم اے کِٹس کا ٹھیکا نااہل کمپنی کو دیا گیا،اینٹیجن کِٹس کا کنٹریکٹ بھی ایسی کمپنی کو دیا گیا جس نے جعلی دستاویزات فراہم کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایکسرے مشینوں کی کٹِس اور فلمز اسپتالوں کو فراہم نہیں کی گئیں، یہ پی ٹی آئی کی ساڑھے 8 سال کی خیبرپختونخوا میں کارکردگی ہے،آکسیجن سلنڈرز کی خریداری میں بھی 5 کروڑ روپے کا نقصان کیا گیا۔مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب کی طرف سے پی ٹی آئی حکومت پر کرپشن کا الزام عائد آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے 2020 ء میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مختص کیے گئے امدادی پیکیج کی جانچ پڑتال کی رپورٹ میں اربوں روپوں کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ان بے ضابطگیوں کی توثیق کی جا چکی ہے۔
اس رپورٹ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن، وزارت دفاع اور دیگر محکموں کے اکاؤنٹس اور ان کو کووڈ 19 کی وبا سے نمٹنے کی مد میں دی گئی رقم کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔ رپورٹ میں سامنے آنے والی بے ضابطگیوں کے بارے میں پی ٹی آئی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف اس رپورٹ سے مطمئن ہے جبکہ اس رپورٹ میں موجود بے ضابطگیوں کی توثیق کی جا چکی ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے رہنما ان محکموں اور اداروں میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف کسی قدم اٹھائے جانے یا انکوائری شروع کرنے کے حوالے سے کوئی جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
نومبر 2021ء میں دو سو سے زائد صفحات پر مبنی آڈیٹرجنرل کی اس رپورٹ میں این ڈی ایم اے، بی آئی ایس پی، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن، وزارت دفاع اور دیگر سرکاری محکمہ جات کو کووڈ امدادی پیکج کے تحت دی جانے والی رقوم کی جانچ پڑتال کی گئی جس میں کم از کم چالیس ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کو اس عرصے میں 33 ارب روپے دیے گئے جس میں ادارے نے تقریباً 23 ارب روپے استعمال کیے۔
تاہم اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے بعد بتایا گیا کہ آڈٹ کے دوران متعدد ایسے مشاہدات سامنے آئے جس میں سامان حاصل کرنے کے عمل میں بے ضابطگیاں، معاہدوں اور مالیاتی معاملات میں نگرانی کے عمل میں کمزوریاں نظر آئیں۔ این ڈی ایم اے کی جانب سے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کے ساتھ ریسورس مینجمنٹ سسٹم کے نفاذ کے لیے کیے گئے تقریباً سوا چار کروڑ روپے کے معاہدے پر رپورٹ میں سوالات اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ معاہدہ کی کوئی توجیہ نہیں ہے، کیونکہ این آئی ٹی بی کے پاس اس نظام کو نافذ کرنے کی اہلیت نہیں تھی اور نہ ہی اس معاہدے کو اتنی جلد بازی میں کرنے کی توجیہ قابل قبول ہے۔
اسی طرح رپورٹ میں این ڈی ایم اے کے ایک اور منصوبے کا ذکر کیا گیا کہ چین کی جانب سے چالیس لاکھ ڈالر کی رقم 250 بستروں پر مشتمل ہسپتال تعمیر کرنے کے لیے عطیہ کی گئی۔ این ڈی ایم اے، جس کے اس وقت سربراہ لیفٹننٹ جنرل محمد افضل تھے، انہوں نے اس ہسپتال کی تعمیر کا ٹھیکہ فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو دیا اور اس مد میں ایف ڈبلیو او کو دو قسطوں میں 60 کروڑ روپے ہسپتال کی تعمیر کے لیے دیے گئے۔
آڈٹ کی جانچ پڑتال سے یہ بات سامنے آئی کہ این ڈی ایم اے نے اس ہسپتال کی تعمیر کے لیے چینی عطیے کی رقم کے بجائے کووڈ فنڈ سے رقم استعمال کی جبکہ عطیہ کی گئی چینی رقم استعمال نہیں کی گئی۔ دوسری جانب آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سرکاری اہلکاروں اور ان کی بیوی یا شوہر بی آئی ایس پی کی جانب سے دی گئی رقم کے حقدار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود آڈٹ سے پتا چلا کہ 1.8 ارب روپے انہیں دیے گئے ہیں جو کہ بے ضابطگی کے زمرے میں آتے ہیں۔رپورٹ میں یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے بارے میں بتایا گیا کہ چینی کی خریداری میں 1.4 ارب روپے جبکہ گھی اور کوکنگ آئل کی خریداری کی مد میں 1.6 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹرجنرل پاکستان کی رپورٹ اور دستیاب شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو انہی مسائل کا سامنا ہے جیسے مسائل سے سابقہ حکومتوں کو دوچار ہونا پڑا تھا، تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کی حکومت پر جب کرپشن کا الزامات لگائے تو ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی ساری توجہ سڑکیں بنانے پر ہے اور یہ کہ سڑکوں کی تعمیر میں کرپشن کی جا رہی ہے، یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ترقیاتی کاموں کی آڑ میں ملک کو مقروض بنایا جا رہا ہے۔
جب ان سے کرپشن کے شواہد طلب کئے جاتے تو تحریک انصاف کے پاس تسلی بخش جواب نہ ہوتا، یوں دکھائی دیتا تھا کہ جیسے تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کا ہر ترقیاتی کام کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو مسلم لیگ ن کی قیادت کو احتساب کے نام پر پابندسلاسل کر دیا گیا تو شہباز شریف کے قریب سمجھے جانے والے بیوروکریٹس کو بھی احتسابی عمل سے گزارا گیا، شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو احتساب کے نام پر طویل عرصہ تک پابند سلاسل رکھا گیا لیکن کچھ ثابت نہ ہوا تو اسے رہا کرنا پڑا۔
اسی طرح کئی دیگر بیورکریٹس کو بھی احتساب کا نشانہ بنایا گیا، تحریک انصاف کو اس نقصان یہ ہوا کہ بیوروکریسی نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ حکومت کو اس کا ادراک تاخیر سے ہوا، اب صورتحال عجیب مرحلے میں داخل ہو رہی ہے مسلم لیگ ن حکومت سے وہی سوال کرتی دکھائی دے رہی ہے جو سوال تحریک انصاف اپوزیشن میں ہوتے ہوئے مسلم لیگ ن کی حکومت سے کر رہی تھی۔ تحریک انصاف کرپشن کے الزامات سے کیسے باہر آتی ہے اس بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے البتہ ایک بات طے ہے کہ مایوس کن کارکردگی کے ساتھ کرپشن کے الزامات کا تاثر گہرا ہو جائے گا۔