خواجہ سرا ….. ایک نہایت مظلوم مخلوق!
کچھ دن قبل، میں گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا تو ایک خواجہ سرا نے شیشہ کھٹکھٹایا۔ میں نے شیشہ نیچے کیا تو کہنے لگی ’’صاحب جی، بچیاں دی خیر ہووے، کوئی مدد کر جاؤ‘‘۔ مجھے اس کے یہ الفاظ نجانے کیوں دل میں تیر کی طرح چبھتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اس کے بعد اس سے مندرجہ ذیل مختصر گفتگو ہوئی:
آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟
سرگودھے سے۔
یہاں کیا کر رہی ہو؟
میں یہاں رہتی ہوں۔
کس کے ساتھ؟
اپنے گرو کے ساتھ ۔
اپنے گھر میں میں کیوں نہیں رہتی؟
ہمیں گھروں سے نکال دیا جاتا ہے؟
کیوں؟
آپ کسی کی اولاد نہیں؟
اولاد تو ہیں، پر گھروں میں نہیں رکھتے۔
مجھے اس کی اس گفتگو سے بہت دکھ ہوا کہ ایک جیتے جاگتے انسان کو اس طرح زندگی سے محروم کرنا کہ وہ نہ زندوں میں شمار ہو اور نہ مردوں میں، کہاں کا انصاف ہے؟
سوال یہ ہے کہ خواجہ سرا کس طرح عام انسانوں سے مختلف ہیں کہ وہ اپنے والدین کے گھر میں رہنے کا بھی حق نہیں رکھتے؟
اور وہ والدین کیسے ہیں جو اپنے جگر گوشوں کو اپنے گھروں سے نکال کر معاشرے میں پھیلے کتوں بلوں کے آگے ڈال دیتے ہیں؟
کیا والدین اپنے اندھے، گنجے، لولہے، لنگڑے، گونگے، بہرے اور دائمی امراض میں مبتلا بچوں کو اپنے گھروں میں نہیں رکھتے؟
پھر خواجہ سراؤں کو جیتے جی جہنم میں کیوں دھکیلا جاتا ہے؟
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے دین نے معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کی ضمانت دی ہے اور خواجہ سراؤں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر ان میں مردوں والی خاصیات زیادہ ہیں تو ان کو مرد اور عورتوں والی صفات زیادہ ہوں تو عورت سمجھا جائے اور اسی کے مطابق ان پر سارے احکام جاری ہوں گے اور وہ میراث میں عام مرد وخواتین کی طرح شریک ہوں گے۔
اگر خاصیات سے خواجہ سرا کی جنس کی تعیین نہ ہو سکتی ہو تو اسے خنثیٰ مشکل کا نام دیا گیا ہے جس کے اپنے احکام ہیں لیکن کسی بھی حالت میں ان کو خانہ بدر نہیں کیا جا سکتا بلکہ والدین پر ان کے حقوق بھی اسی طرح لازم ہیں جس طرح کسی بھی بچے کے ہوتے ہیں اور بلوغت کے بعد ایک عام انسان کی طرح وہ اپنے معاملات کو خود دیکھنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس لئے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ معاشرے کی خواجہ سراؤں کے بارے میں اس غلط سوچ کو تبدیل کیا جائے، جس کا اسلام یا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں اور والدین کو ریاست مجبور کرے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر سے نہ نکالیں۔
اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی مناسب پرورش اور تعلیم وتربیت کا بندوبست کر کے ان کو معاشرے کا مفید فرد بنائے کیونکہ جو کام مرد اور خواتین کر سکتے ہیں، وہ خواجہ سرا بھی کر سکتے ہیں۔ اس طرح ان کو ذلت اور خواری کی زندگی اور موجودہ زبوں حالی سے نکالا جا سکتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے کچھ لوگ اس میدان میں نجی کوششیں کر رہے ہیں اور کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی خواجہ سراؤں کے بارے میں فکرمند ہیں لیکن ان تنظیموں میں سے اکثر کی فکرمندی کی تان بیرونی مدد حاصل کرنے پر ٹوٹ جاتی ہے۔
اس لئے علماء کرام اور ان لوگوں سے خصوصی گزارش ہے جن کی جڑیں عوام میں ہیں، کہ وہ اس اہم مسئلے کو اجاگر کریں اور جہاں کسی خواجہ سرا کو خانہ بدر کرنے کا ان کو علم ہو، اس کے والدین سے مل کر ان کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے کسی بچے پر یہ ظلم نہ کریں۔ اگر خواجہ سراؤں کو واپس گھروں میں بھیجنے کی نجی اور سرکاری سطح پر مربوط کوشش کی جائے تو امید ہے کہ کچھ ہی عرصے میں گلیوں اور سڑکوں پر مارے مارے پھرنے والے خواجہ سراؤں کی بڑی تعداد واپس اپنے گھروں کو جا سکتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہ کام بہت مشکل ہے اور معاشرے کو اپنی سوچ بدلنے پر تیار کرنا بہت مشکل ہے لیکن ایک کوشش کر لینے میں کیا حرج ہے؟
اگر کامیاب ہو گئے تو عند اللہ ماجور اور کامیاب نہ ہو سکے تو بھی ثواب کے مستحق۔
نوٹ: جو لوگ خواجہ سرا یا خنثی نہیں اور صرف بھیک مانگنے کے لئے سوانگ بھرتے ہیں، ان کو کڑی سزا دی جانی چاہئے کیونکہ اسلام میں مرد کو عورت اور عورت کو مرد کا روپ دھارنا حرام ہے۔