سیاسی جماعتیں ادارہ کیوں نہ بن سکیں؟
پاکستان کا سیاسی نظام تب تک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک سیاسی جماعتیں اپنا قبلہ درست نہیں کرتیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کے نزدیک یہ ایک نان ایشو ہے جبکہ سیاسی نظام کے ریاستی ریگولیٹر الیکشن کمیشن آف پاکستان، اس جانب ضروری توجہ دینے سے قاصر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن کر رہ گئی ہیں۔
الیکشن کمیشن اگر سیاسی جماعتوں کے آئین، آئین کے مطابق ان کی ورکنگ، آزادانہ اور شفاف جماعتی انتخابات، عوامی عہدوں کیلئے امیدواروں کے انتخاب کے طریقہ کار، فیصلہ سازی کے عمل اور انضباطی کاروائی جیسے معاملات پر نظر رکھے تو سیاسی جماعتیں ادارہ بن سکتی ہیں لیکن الیکشن کمیشن اس بابت ہمیشہ بے پرواہ رہا ہے۔
سب سے پہلے الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے جمع کروائے گئے آئین کا جائزہ لے، ہر جماعت کا آئین الیکشن ایکٹ 2017 ء کے ضابطے اور آئین پاکستان میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق ہونا تو قانونی تقاضا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ جمہوری اقدار اور روح کے مطابق بھی ہے یا نہیں ہے۔ اس اطمینان کے بعد اس آئین کی پابندی کروانے کیلئے کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔
میری رائے رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ورکنگ پر نظر رکھنے کیلئے الیکشن کمیشن میں ایک کل وقتی مستقل مانیٹرنگ ڈیسک ہونا چاہئیے جو روزانہ کی بنیاد پر کام کرے۔ ایک خبردار اور متحرک الیکشن کمیشن بہت سی خرابیوں کی اصلاح کا سبب بن سکتا ہے۔ جو سیاسی نظام اچھی قیادت پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے وہاں ملکی سطح پر پاکستان جیسے مسائل دیکھنے میں آتے ہیں۔
دنیا کی مہذب اقوام میں ’’دیدہ ور‘‘ اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوتے بلکہ سسٹم ایک سے بڑھ کر ایک گہرنایاب پیدا کر رہا ہوتا ہے۔
جب انسانوں نے طے کر لیا ہے کہ وہ نظم اجتماعی قائم کریں گے اور اس نظم کو چلانے کیلئے جمہوریت پر کاربند رہیں گے تو بہترین سیاسی نظام وضع کرنا قیادت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کسی سیاسی نظام کی بہتری کا پیمانہ اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس نظام میں نیک، ایماندار اور اہلیت رکھنے والی قیادت پیدا کرنے کی کیا صلاحیت موجود ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام اس صلاحیت سے محروم ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کمزور ہیں۔
سیاسی جماعتیں جن وجوہات کی بنا پر مخصوص طبقے و ٹولے کی یرغمال بن جاتی ہیں انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں ٹھیک ہو نگی تو سیاسی نظام مضبوط ہو گا بصورت دیگر ہمارے مسائل کبھی ختم ہونے میں نہیں آئیں گے۔
میری آج کی تحریر کا مقصد بھی یہی ہے۔ اس تحریر میں میں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ کسی سیاسی جماعت میں خرابی کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور وہ ایک ادارہ کیسے بن سکتی ہے؟ آئیے ان اصولوں و ضوابط کا جائزہ لیں جن پر کاربند ہو کر کوئی سیاسی جماعت ادارہ بن سکتی ہے۔
1۔ بنیادی بات: ایک جیسے خیالات رکھنے والے لوگ جب سیاسی نظم میں آتے ہیں تو سب سے پہلے وہ تنظیم کے مقاصد پر اتفاق کرتے ہوئے تنظیمی ڈھانچے، عہدیدران کے فرائض و اختیارات، تنظیم کے کام کرنے کے طریقہ کار اور دیگر امور کو نمٹانے کیلئے کچھ اصول وضع کرتے ہیں، اصولوں کے اس مجموعہ کو کام کرنے کا ضابطہ یا قانونی زبان میں ’’پارٹی آئین‘‘کہتے ہیں۔
2۔ ایک سیاسی جماعت ادارہ اس وقت بنتی ہے جب اس کے تمام عہدیدران، اوپر سے لیکر نیچے تک، اپنے آپ کو اپنے پارٹی آئین کے تابع سمجھتے ہیں اور اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں من و عن اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
3۔ ایک سیاسی جماعت ادارہ اس وقت بنتی ہے جب اس پارٹی میں فیصلہ سازی کا عمل ادارہ جاتی ہوتا ہے۔ پارٹی کی پالیسی بنانے اور دیگر امور میں فیصلے چند افراد تک محدود رکھنے کی بجائے مشاورت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ اس مشاورت میں پارٹی کی ہر سطح کے لوگ جتنے زیادہ شریک ہوتے ہیں فیصلہ سازی کا عمل بہتر سے بہترین ہوتا جاتا ہے۔
4۔ ایک سیاسی جماعت ادارہ اس وقت بنتی ہے جب وہ اپنے تمام اراکین کو شخصی اوصاف اور صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے اور پارٹی میں اعلی مقام حاصل کرنے کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔
5۔ ایک سیاسی جماعت ادارہ اس وقت بنتی ہے جب وہ اپنے اراکین کو پارٹی عہدیدران کے انتخاب کا آزادانہ اور منصفانہ حق دیتی ہے۔ اکثر جماعتوں میں اراکین سے یہ حق سلب کر لیا جاتا ہے چنانچہ اول تو پارٹی انتخابات میں پس و پیش سے کام لیا جاتا ہے، لیکن اگر پارٹی الیکشن کرانا مجبوری بن جائے تو یہ انتخابات بری طرح کنٹرولڈ ہوتے ہیں۔
6۔ ایک سیاسی جماعت ادارہ اس وقت بنتی ہے جب وہ اپنے اراکین کو’’پارٹی ممبر شپ‘‘ کے تحفظ کی مکمل ضمانت دیتی ہے، کسی شدید اختلاف کی صورت میں بھی پارٹی رکن کو منصفانہ ٹرائل اور صفائی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
7۔ ایک سیاسی جماعت ادارہ اس وقت بنتی ہے جب اس میں سزا اور جزا کا نظام قائم ہوتا ہے اور انضباطی کمیٹی کسی دباو کے بغیر آزادانہ کام کرتی ہے۔
8۔ ایک سیاسی جماعت ادارہ اس وقت بنتی ہے جب وہ حکومتی ایوانوں کیلئے اپنے امیدوران کے انتخاب میں پارٹی اراکین کی رائے کے مطابق فیصلے کرتی ہے، یہ رائے متعلقہ حلقے کے پارٹی اراکین دیتے ہیں اور اس کو ہی مقدم سمجھا جاتا ہے، پارلیمانی بورڈز کا اختیار محض ایک سپروائزری باڈی کا ہوتا ہے جو اس سارے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس طرح ٹکٹوں کی تقسیم میں خرید و فروخت، بندر بانٹ اور منظور نظر افراد کو نوازنے کے الزامات سے بچا جاسکتا ہے۔
9۔ ایک سیاسی جماعت ادارہ اس وقت بنتی ہے جب اس میں کسی سطح پر اور کسی حوالے سے منظور نظر افراد کو نوازنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہوتی اور چند افراد پرمشتمل ٹولہ پارٹی سربراہ کو یرغمال نہیں بنا سکتا نہ ہی پارٹی فیصلوں و تنظیم پر مسلط ہو سکتا ہے۔
10۔ ایک سیاسی جماعت ادارہ اس وقت بنتی ہے جب وہ اپنے اراکین، اپنی تنظیم اور تنظیمی فیصلوں کا مکمل ریکارڈ رکھتی ہے۔ انتخابی و ملکی سیاست اور پالیسی سازی میں ڈیٹا کی اہمیت مسلمہ ہے چنانچہ کوئی پارٹی اس وقت ادارہ نہیں بن سکتی جب تک کہ وہ ان خطوط پر اپنے آپ کو منظم نہیں کرتی۔
11۔ ایک پارٹی ادارہ اس وقت بنتی ہے جب ہر سطح پر وہ اپنے اراکین و عہدیدران کی مناسب تربیت کا بندوبست کرتی ہے اور انکو ضرورت پڑنے پر حکومتی منصب سنبھالنے کیلئے تیار کرتی ہے۔
موضوع اگرچہ وسیع ہے لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ اختصار اور جامعیت کا سہارا لیکر اپنی بات کو سمیٹ سکوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ میری یہ کاوش احباب فکر و نظر کی توجہ حاصل کرے گی اور وہ اسے اپنا موضوع سخن بنائیں گے۔