شہروں کا پھیلاؤ بڑھ گیا، حل کیا ہے؟
شہر کے اطراف میں آباد گاؤں دیہات اب شہروں کا حصہ بن چکے ہیں، بلکہ کسی دور میں دیہی آبادی سمجھے جانے والے علاقے آج اندرون شہر کہلاتے ہیں، شہروں سے دور کے علاقے جو غیر آباد یا زرعی کھیت تھے اب ان جگہوں پر عالیشان ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ شہروں کا پھیلاؤ اس قدر بڑھ گیا کہ ایک ہی شہر میں ملاقات کیلئے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ ایک شہر ہونے کے باوجود تین سے چار گھنٹے شہر کے اندر سفر کرنا پڑتا ہے اگر کہیں ٹریفک جام ہو گئی تو کئی گھنٹے مزید لگ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ 2050ء تک دنیا کی آبادی میں کئی ارب کا اضافہ ہو جائے گا جس میں اس آبادی کا دو تہائی حصہ شہری آبادی پر مشتمل ہو گا کیونکہ گاؤں دیہات کے مکین شہروں میں دستیاب سہولت سے مستفید ہونے کیلئے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ گاؤں سے شہر منتقل ہونے والے اکثر لوگ تعلیم، علاج اور معیار زندگی میں بہتری کی وجہ سے شہروں میں آباد ہونے کو ترجیح دینے لگے ہیں، اگر انہیں معیاری تعلیم، علاج کی سہولیات اور روز مرہ کی مناسب سہولیات گاؤں دیہات میں فراہم کر دی جائیں تو وہ قطعی اپنے آبائی علاقے کو نہیں چھوڑیں گے۔
دیہی آبادی کی بڑی تعداد کا شہروں کا رخ کرنا شہری آبادی کیلئے بھی خطرے کا باعث بن رہا ہے کیونکہ جو سہولیات آج سے پچاس برس پہلے کی آبادی کو سامنے رکھ کر فراہم کی گئی تھیں آج کی آبادی کیلئے وہ سہولیات ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں گھروں کی کمی پورا کرنے کا یہ حل نکالا کیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی جائیں، اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ شہروں کے اردگرد لاکھوں ایکڑ زمینیں جو زراعت کیلئے مختص تھیں یا شہر کی آب و ہوا کیلئے کھلی زمینیں اہمیت کی حامل تھیں ان لاکھوں ایکڑ زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بن چکی ہیں، سوسائٹیاں بناتے ہوئے ہم نے خیال نہیں رکھا کہ اس سے زرعی زمینیں ختم ہو رہی ہیں اور زرعی زمینیں کم ہونے کی وجہ سے صحت بخش غذا کی کمی پیدا ہو سکتی ہے۔
کیسی عجیب منطق ہے کہ گاؤں کے قدرتی ماحول اور زرعی زمینوں پر پھیلے لاکھوں درختوں کو ختم کر کے شہروں میں درخت لگانے کی مہم چلائی جاتی ہے، پوری دنیا میں ہرے بھرے گاؤں دیہات ہوتے ہیں شہر نہیں، شہروں میں خوبصورتی کیلئے پھول لگائے جا سکتے ہیں ماحول کو بہتر کرنے کیلئے ہرگرز نہیں۔
زرعی زمینیوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کی بجائے پوری دنیا میں گھروں کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ملٹی پل سٹوری پر مشتمل عمارات تعمیر کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، ملٹی پل سٹوری کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کم زمین پر زیادہ لوگوں کو گھر کی نعمت فراہم کی جا سکتی ہے جو پلاٹ پر گھر تعمیر کرنے کی نسبت کافی سستی پڑتی ہے اور شہر کے قریب ترین جگہ پر رہائش ہونے کی وجہ سے لوگوں کو آسانی رہتی ہے۔ ہاؤسنگ سیکٹر سے منسلک افرادکاکہنا ہے کہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو این او سی کے اجراء، ڈیویلپمنٹ اور مکمل آباد کاری تک بیس سے پچیس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے،یوں سرمایہ طویل عرصے تک ایک جگہ منجمد ہو کر رہ جاتا ہے، اس سے کہیں بہتر ہے کہ سرمائے کو گردش میں رکھا جائے اور سستی رہائش کو فروغ دیا جائے۔
پاکستان کے برعکس ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ لیں تو وہاں کی دیہی آبادی شہری آبادی جیسا لائف سٹائل رکھتی ہے کیونکہ وہاں کی حکومتوں نے دیہی آبادی کا بوجھ شہروں پر پڑنے سے روکنے کیلئے دیہی آبادی کو وہ تمام سہولیات گاؤں دیہات میں ہی فراہم کر رکھی ہیں جو شہری آبادی کو حاصل ہیں۔مگر ہمارے ہاں اس امر کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا ہے شہروں کو دیکھ کر تو انداہ ہوتا ہے کہ جیسے ہم یورپ میں رہ رہے ہیں جبکہ گاؤں میں رہنے والے افراد کے معیار زندگی سے پسماندگی عیاں ہوتی ہے، ہمیں اس تفریق کو ختم کرنا ہو گا۔
گاؤں دیہات کو نظر انداز کر کے ہم نے شہروں میں رہنے والوں کیلئے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں، شہری آبادی کے مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے، شہری آبادی پر بوجھ پڑنے کی وجہ سے شہروں کو صاف پانی کی کمی کا سامنا ہے، بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں مکین پانی کی کمی دور کرنے کیلئے ٹینکر سے مہنگا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہو جائیں گے اور شہری آبادی کو صاف پانی کی فراہمی ایک چیلنج بن جائے گی۔ آبادی کے مسائل پر نظر رکھنے والے افراد کہنا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں شہری آبادی میں محض کوڑا کرکٹ کے مسائل اس قدر بڑھ جائیں گے جس سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔ دنیا میں کوڑا کرکٹ کے مسئلے کا ادراک کر کے نہ صرف اس کے مضر اثرات سے بچا جا رہا ہے بلکہ کوڑے کو توانائی کے حصول کا اہم ذریعہ بنا لیا گیا ہے اس کے برعکس اگر پاکستان میں دیکھیں تو کوڑا اٹھانے والی کمپنیاں شہروں سے دو دن تک کوڑا نہ اٹھائیں تو اس سے اٹھنے والا تعفن جینا محال کر دے گا۔
انہی خدشات کئے باعث پوری دنیا میں ایک مہم چل رہی ہے جسے ’’گاؤں دیہات بچاؤ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سائیکل کا استعمال ماحول دوست سواری ہونے کی وجہ سے رواج پا رہا ہے، ہمارے ہاں اسے عار سمجھا جاتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہمیں معمولی چیز لینی ہو اور ہم سائیکل پر مارکیٹ چلے جائیں؟
ہمارے سماج میں اب سائیکل کی طرف جانا بہت مشکل ہے کیونکہ ہم نے اپنے طور پر جو معیار سیٹ کر رکھے ہیں ان کے خلاف جانا ہمارے لئے آسان نہیں رہا ہے، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور کینیڈین وزیر اعظم کی طرح کئی دیگر وزرائے اعظم ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان ہونے کے باوجود وہ سائیکل پر امور نمٹاتے دکھائی دیتے ہیں اور اس دوران وہ عوام سے ملتے بھی ہیں، ہمارے ہاں امور کو نمٹانے کیلئے سائیکل استعمال کرنا وزیر اعظم تو دور کی بات عام شہری بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہمیں بھی گاؤں دیہات میں رہنے والے لوگوں کا احساس کر کے انہیں سہولیات فراہم کرنے کیلئے منصوبہ بندی کرنی ہو گی، اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو گاؤں دیہات میں رہنے والے لوگ شہروں میں آ کر آباد ہو جائیںگے جنہیں سنبھالنا آسان نہ ہو گا۔