کیااپوزیشن حکومت کی سہولت کار بن گئی؟
تحریک انصاف حکومت کی طرف سے منی بجٹ کے اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ منی بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گی، مگر یہ دعوے محض باتوں تک محدود رہے، کیونکہ جمعرات کے روز حکومت نے قومی اسمبلی سے منی بجت منظور کرا لیا ہے، حکومت کے حق میں 163ووٹ جبکہ مخالفت میں 146ووٹ آئے۔قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے شدید ہنگامہ آرائی کی تاہم منی بجٹ کو روکنے کیلئے وہ مطلوبہ ووٹ پیش کرنے سے قاصر رہی ہیں۔
منی بجٹ کے ذریعے حکومت نے 350 ارب روپے کا اضافی بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے، جس سے غریب طبقہ کی مشکلات بڑھ جائیں گی، حکومت کا مؤقف ہے کہ اس نے اضافی بوجھ نہیں ڈالا ہے بلکہ پہلے سے دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا ہے، وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ منی بجٹ میں لگائے جانے والے 343 ارب روپے میں سے 280ارب روپے ریفنڈ ہو جائیں گے اور صرف 71ارب روپے کا ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جو بھی مؤقف اختیار کرے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض کی قسط حاصل کرنے کیلئے اس کی ایما پر ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ کو ختم کیا جا رہا ہے اسے آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک حکومت جن اشیاء پر عوام کو سبسڈی دے رہی تھی اب اس سبسڈی کو ختم کر دیا گیا ہے، جس کے بعد عوام کو وہ اشیاء مہنگی دستیاب ہوں گی۔
منی بجٹ کے اثرات آئندہ ماہ سے شروع ہو جائیں گے، بجلی کے اضافی بل، پیٹرول مہنگا جبکہ کھانے پینے کی درجنوں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا، اگلے چند روز میں مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا، جو عوام کو سٹرکوں پر نکلنے پر مجبور کر دے گا۔ اس پس منظر کے بعد پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن نے منی بجٹ منظور ہونے میں سہولت کاری فراہم کی ہے، رہا یہ سوال کہ اپوزیشن بجٹ کی منظوری میں حکومت کو سہولت کیوں فراہم کرے گی تو ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے دانستہ طور پر ایسا کیا ہے تاکہ حکومت کی ناکامی پر مہر ثبت کی جا سکے کیونکہ جب عوام مہنگائی کے ستائے باہر نکلیں گے تو اپوزیشن جماعتیں اسے کیش کریں گی، اور ناکامی کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیں گی۔
اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے کبھی بھی نہیں ہٹائیں گی ہاں وزیر اعظم عمران خان دل برداشتہ ہو کر خود اسمبلیاں تحیلی کر دیں تو یہ الگ بات ہے۔ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ تحریک انصاف کی ناکامی کا تاثر مزید گہرا کر دیا جائے تاکہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کیلئے مشکلات پیدا کر کے اس کا راستہ روکا جا سکے چونکہ یہ کام عوامی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے سو اپوزیشن جماعتیں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ایوان سے باہر احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گی اور ایوان میں حکومت کیلئے ایسی مشکلات پیدا کرنے سے گریز کریں گی جس سے حکومت کا ڈھڑن تختہ ہو جائے اور اس کا الزام اپوزیشن جماعتوں پر آئے۔
اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کو اس کی آئینی مدت سے پہلے گرانے کے حق میں اس لئے نہیں ہیں کیونکہ میثاق جمہوریت کے تحت مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے جمہوریت ڈی ریل ہو جائے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان حالات سے پریشان ہو کر خود ہی حکومت کو ختم کر دیتے ہیں تو اس کا الزام اپوزیشن جماعتوں پر نہیں آئے گا، وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کی کمزروی کو بخوبی جانتے ہیں سو وہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے از خود حکومت کا خاتمہ کرنے سے اجتناب کریں گے۔ سیاسی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے جو اراکین اسمبلی اپوزیشن کے ساتھ اندرون خانہ مل گئے وہ بھی آئندہ بجٹ تک تحریک انصاف کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کریں گے اور ضرورت پڑنے پر ووٹ بھی تحریک انصاف کو ہی دیں گے کیونکہ اراکین کو امید ہے کہ تحریک انصاف اپنے دور حکومت کے آخری سال ترقیاتی بجٹ جاری کرے گی جس سے فائدہ اٹھانا اراکین اپنا حق سمجھتے ہیں۔
تحریک انصاف حکومت کی تین سالہ کارکردگی سے انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی ماندہ مدت میں حکومت کیلئے مزید مشکلات اور چیلنجز ہوں گے جن سے نکلنا حکومت کیلئے آسان نہ ہو گا، تحریک انصاف کی قائدین حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان مسائل کو تسلیم کر رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جب بھی عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جاتے ہیں مجبوری میں جاتے ہیں اور قرض لینے کے لیے شرائط ماننے سے سیکیورٹی پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
قومی سلامتی پالیسی کے پبلک ورژن کے اجرا کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ارتقا بہت غیر محفوظ حالات میں ہوا۔ جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری سیکیورٹی فورسز نے ملک کو محفوظ بنایا اس کے مقابلے میں دیگر مسلمان دنیا کے ممالک مثلاً لیبیا، صومالیہ، شام، افغانستان کی افواج اپنے ملک کی حفاظت نہیں کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے بہت سے پہلو ہیں، اگر ایک ہی پہلو پر توجہ دی جائے تو ہمارے پاس سوویت یونین کی مثال ہے کہ دنیا کی سب سے طاقتور فورسز بھی سوویت یونین کو اکٹھا نہ رکھ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہماری حکومت، عوام ایک سمت میں چلیں، اگر معیشت درست نہیں ہو تو آپ اپنے آپ کو طویل عرصے تک محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت میں بھی کبھی یہ نہیں سمجھا گیا کہ ہمیں اپنے آپ کو کس طرح محفوظ بنانا ہے، شرح نمو بڑھتی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جاتا تھا جس سے روپے پر دباؤ پڑتا تھا اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب بھی آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں مجبوری میں جاتے ہیں کیوں کہ آخری حل کے طور پر صرف آئی ایم ایف مدد کرنے والا رہ جاتا ہے جو سب سے سستا قرض دیتا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے ان کی شرائط ماننی پڑتی ہیں اور جب شرائط مانتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سیکیورٹی کمپرومائز ہوتی ہے جو لازمی نہیں کہ سیکیورٹی فورسز ہوں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنے عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے اور سب سے بڑی سیکیورٹی یہ ہوتی ہے کہ عوام آپ کے ساتھ کھڑے ہوں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی میں جامع نمو کا تصور دیا گیا ہے یعنی جب تک ہم بحیثیت قوم ترقی نہیں کریں گے اور صرف ایک طبقہ ترقی کرجائے تو وہ قوم ہمیشہ غیر محفوظ رہے گی۔وزیر اعظم کے بقول سیکیورٹی اس وقت ہوتی ہے جب سب سمھجتے ہیں کہ ہم اس قوم کا حصہ ہیں، اس لیے جامع نمو کا پہلا تصور ریاست مدینہ میں آیا تھا جب فیصلہ کیا گیا کہ ریاست ہر کمزور طبقے کی ذمہ داری لے گی۔ انہوں نے کہا کہ جامع نمو کا تصور یہ ہے کہ سب سے کمزور طبقے کی زندگی کو محفوظ بنایا جائے اور اسی مقصد کے لیے ہر خاندان کو ہیلتھ انشورنس دے کر محفوظ بنایا گیا ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے عزائم کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی ویژن رکتھے ہیں لیکن کارکردگی کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں ملک تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔ خرابی کہاں ہے اور کار گر حل کیا ہے اہل سیاست کو اس حوالے سے سوچنا ہو گا۔
سب سے اہم امر یہ ہے کہ ملک کی 75سالہ تاریخ میں سیاسی استحکام قائم نہیں ہو سکا ہے، جسے تمام مسائل کی جڑ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جب ایک سیاسی جماعت حکومت میں آتی ہے تو دوسری سیاسی جماعتیں اسے کام کرنے کا موقع اور ماحول فراہم نہیں کرتی ہیں جس کی وجہ سے حکومت نان ایشوز میں الجھ کر رہ جاتی ہے، آپ کسی بھی سیاسی جماعت کے دور حکومت کا جائزہ لے لیں آپ کو سیاسی عدم استحکام دکھائی دے گا۔ سیاسی جماعتیں اس وقت خوش ہیں کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام حکومت قرار دینے میں کامیاب ہو چکی ہیں لیکن انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ جب کوئی حکومت ناکام ہوتی ہے تو ملک ترقی کے اعتبار سے پیچھے چلا جاتا ہے اور نئی حکومت کیلئے معیشت ایک چیلنج بن جاتی ہے۔ سو اپوزیشن جماعتوں کی تحریک انصاف حکومت کی ناکامی پر خوش ہونے کی بجائے اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جب ان کی حکومت قائم ہو گی اور اس وقت بھی اگر سیاسی عدم استحکام ایسے ہی رہا تو ان کی حکومت کیسے کارکردگی پیش کر سکے گی؟