مری والوں کی سماجی تنگ نظری
مری کا مجموعی سماجی چہرہ اس قدر مسخ ہو چکا ہے کہ اس میں اچھا کام کرنے والے کسی شمار میں نہیں آتے ہیں، اہل سیاست کو آگے بڑھ کر سماجی فقدان کو ختم کرنے کیلئے رہنمائی فراہم کرنی ہو گی
کوئی بھی قوم محض وسائل اور دولت کی بنا پر مقام و مرتبہ کی حق دار نہیں ٹھہرتی ہے بلکہ سماجی برتری اسے دیگر اقوام سے ممتاز کرتی ہے، آپ پوری دنیا کا مشاہدہ کر لیں آج ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے اور کئی ممالک ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں سرگرداں ہیں مگر جن ممالک میں انسانیت کا خیال رکھا جاتا ہے انہیں خاص مقام حاصل ہے۔ اسلام نے مادی ترقی سے پہلے سماجی ترقی کا درس دیا ہے اور مدینہ کی ریاست کے قیام سے پہلے مسلمان سماجی اعتبار سے بلند مقام پر فائز تھے جب مسلمانوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں مثالی سماج کی تشکیل کے مراحل طے کر لئے تو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا ان کے قدموں میں ڈال دی۔ افسوس کی بات ہے آج اسلام کے نام لیوا سماجی اعتبار سے تنزلی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں، دیگر اقوام کے ساتھ حسن سلوک تو درکنار اپنے مسلمان بھائیوں حتیٰ کہ قریبی عزیزوں کے ساتھ سفاکانہ سلوک رکھا جا رہا ہے، جس کے مظاہر ہم روز دیکھتے ہیں۔
گزشتہ روز مری میں برفباری کے باعث پھنس جانے والے ہزاروں لوگوں کو بروقت مدد نہ ملنا بھی ہماری سماجی پستی کی علامت ہے، حکومت تو بے حس ہے ہی کیا سماج بھی بے حس ہو چکا ہے، کیا مری میں بسنے والے لاکھوں لوگوں میں چند ہزار افراد بھی ایسے نہ نکلے جو اپنے مسلمان بھائیوں کی مشکل کا اندازہ لگاتے اور اپنی رہائش گاہیں ان کیلئے پیش کرتے، اگر ہوٹل مالکان سفاک بن گئے تھے تو بڑی بات نہیں ہے کیونکہ کاروباری ذہن میں ایسا رویہ اختیار کرنا عام سی بات ہے مگر کیا تمام ہوٹل مالکان کے دل پتھر ہو چکے تھے اور انہوں نے لوگوں کو بے یارومدد گار مرنے کیلئے چھوڑ دیا۔ یہ بات مری والوں کیلیے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے کہ ان کی سماجی پہچان کا تاثر اچھا نہیں ہے، یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں جس سے مری والوں کی تنگ نظری ظاہر ہوتی ہے۔ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب 23 افراد برف کے باعث جاں بحق ہوئے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ غضب خدا کا گاڑی کو دھکا لگانے کے 5 ہزار روپے وصول کئے گئے، ہوٹل میں ایک رات کے قیام کا کرایہ 50 ہزار روپے تک لیا گیا اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا، یہ سماجی تنگ نظری نہیں تو اور کیا ہے۔
مری کا مجموعی سماجی چہرہ اس قدر مسخ ہو چکا ہے کہ اس میں اچھا کام کرنے والے کسی شمار میں نہیں آتے ہیں۔ سانحہ مری میں متعدد مثالیں ایسی ہیں کہ جب ہوٹل والوں نے سیاحوں سے اضافی کرائے طلب کرنے شروع کئے تو انہوں نے اپنے گھر کے دروازے کھول دیئے، کئی دینی اداروں نے برف میں پھنسے سیاحوں کو رہنے کیلئے ٹھکانہ اور کھانا فراہم کیا، اسی طرح کئی مقامی افراد اپنے ساتھیوں کی مدد سے گاڑیوں میں پھنسے لوگوں میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرتے دکھائی دیئے۔ یہ مثالیں مری کا روشن چہرہ ہیں جو کسی بھی سماج کیلئے ضروری ہوتا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے سماجی اعتبار سے بلند ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
مری کے لوگ اس بے اعتنائی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور ہوٹل والے بھی اضافی کرایہ کاروباری مسابقت کی وجہ سے وصول کرتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں یہ جواز ناکافی ہے کیونکہ مری کے برعکس ملک کے دیگر سیاحتی مقامات کے بارے سیاحوں کا ایسا تاثر نہیں ہے جیسا مری کے بارے ہے، خیبر پختونخوا کے کئی علاقے مری سے زیادہ خوبصورت ہیں وہاں جانے والے سیاح قدرتی نظاروں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں لیکن خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات تک جانے والے راستے خراب ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ مری کا رخ کرتے ہیں، جن سیاحوں کو مری کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں کی طرف جانے کا اتفاق ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کو جب معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے لوگ آئے ہیں تو دکاندار بسا اوقات اشیاء کی قیمت وصول نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ آپ مہمان ہیں اور مہمانوں سے پیسے وصول نہیں کئے جاتے۔
ہمارا مجموعی مزاج بن چکا ہے کہ ہر کام کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں، حالانکہ سماجی پستی کے لیبل میں سماج کا ہر فرد قصور وار ہوتا ہے اور اس پستی سے نکلنے کیلئے ہر فرد کو برابر کوشش کرنی چاہئے۔ مری کے رہائشیوں پر اگر سماجی پستی کا لیبل لگا ہے تو اس سے نجات کیلئے کوئی باہر سے نہیں آئے گا بلکہ انہیں خود کوشش کرنی ہو گی۔ سیاحوں کے ساتھ رویئے میں تبدیلی لانی ہو گی اور مناسب منافع کی شرح کو فروغ دینا ہو گا، کیونکہ اصل کمائی روپیہ پیسہ نہیں بلکہ وہ سماجی اقدار ہیں جو ہم اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں۔ مری کے اہل دانش اور اہل سیاست کو اس موقع پر سامنے آ کر نمائندگی کرنا ہو گی اور قوم کو بتانا ہو گا کہ جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا، آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے جب تک غلطی کو تسلیم نہیں کریں گے سماجی پستی اپنی جگہ پر برقرار رہے گی اور اگر سماجی پستی برقرار رہتی ہے تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی۔