مری کے مافیاز؟
مری کے سانحہ کے بعد سب سے زیادہ تنقیدوہاں کے ہوٹل مافیاپرکی جارہی ہے حالانکہ مری میں صرف ہوٹل مافیانہیں دیگربہت سے مافیازہیں جوسیاحوں کودونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں مثلاٹرانسپورٹ مافیاہے ،جومخصوص موسم میں من پسندکرائے وصول کرتاہے ،حالیہ دنوں میں جب فیض آبادسے مری کاکرایہ 180روپے تھا توخستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ والے فی سواری 400روپے چارج کرتے رہے ،مری کے مقامی ٹیکسی ڈرائیورایک کلومیٹرکے پانچ سورروپے لیتے ہیں ،مری اورکوٹلی ستیاں کایہ ٹرانسپورٹ مافیاتونہایت سطحی ذہنیت کامالک ہے اگران کے علاقے سے آزادکشمیرسے پنڈی آنے والی گاڑی کسی مسافرکواٹھالے تویہ مرنے مارنے پر آجاتے ہیں، بلکہ اب انہوں نے ایک نئی واردات شروع کی ہے یہ مسافرگاڑیوں کے چھتوں پرسوارہوجاتے ہیں اورمسافروں کے سامان سے قیمتی چیزیں نکال لیتے ہیں۔
اسی طرح مری اورگلیات میں ایک تاجرمافیاہے سب سے پہلے تواس تاجرمافیانے تجاوزارت کی بھرمارکی ہوئی ہے ان کی تجاوزارت کی وجہ سے لوگوں کوپیدل چلنے اورگاڑی پارک کرنے میں مشکلات کاسامناہے پھراس کے ساتھ ساتھ سیاحت کی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی یہ مافیا چیزوں کے نرخ بڑھادیتاہے حدتویہ ہے کہ تیس روپے میں ملنے والی پانی کی بوتل تین سوروپے میں بیچتے ہیں،سڑک کے کنارے خواتین کی چادریں بیچنے والے بھی ہزارکی چادرپانچ ہزارروپے میں فروخت کررہے ہوتے ہیں ،غرضیکہ کوئی چیزایسی نہیں ہوتی جس پر،،غنڈہ ٹیکس ،،وصول نہ کیاجاتاہو۔
ایک موسمی مافیاہے جومخصوص مقامات اورمخصوص موسم میں پیداہوتاہے مثلااس سانحہ کے دن کی ہی مثال لے لیں ایک طرف رات بھرسیاح ٹھنڈاوربرف باری کامقابلہ کرتے کرتے جان کی بازی ہاررہے تھے اوردوسری طرف بچ جانے والوں کودونوں ہاتھوں سے لوٹاجارہاتھا یک سیاح کے مطابق صبح ہم نے آٹھ آٹھ سوروپے کی دو روٹیاں اور بارہ سوروے فی کپ چائے کے حساب سے ناشتہ کیا۔ ابھی بھی طوفان جاری تھا اور اندھیرا تھا۔ تقریبا 9 بجے پٹرول ختم ہو گیا۔ بچے ٹھٹھرنے لگے۔ ھم نے انہی لوکل لوگوں سے تین ہزار روپے لٹر پٹرول لیا۔ اب لوگوں کے مرنے سے ایک خوف کی فضا بن چکی تھی۔مگرمقامی لوگ ابھی بھی اسی طرح 1000 کا انڈہ دے رہے تھے۔ یہ موسمی مافیادوہزارروپے کلوپکوڑے اورپانچ سوروپے کی مکئی کی چھلی بیچ کردیہاڑی لگاتاہے ۔
اسی مخصوص مافیاکاایک چہرہ چین مافیاکی صورت میں دیکھاجاسکتاہے ،یہ مافیامخصوص مقامات پرگاڑیوں میں چین لگانے اورریسکیو کرنے کے تین سے پانچ ہزارروپے لیتاہے اوریہ بات اب طشت ازبام ہوچکی ہے کہ سڑک پربرف پھینک کریامخصوص مقام پرٹرک یاگاڑی کھڑی کرکے یہ رکاوٹیں پیداکی جاتی ہیں بعض اوقات کسی سیاح کی گاڑی خراب یابندہونے کی صورت میں دھکالگانے کے ریٹ بھی وصول کیے جاتے ہیں اس کے لیے مخصوص بندے متحرک ہوتے ہیں جہاں ہی کسی گاڑی کے خراب ہونے یابندہونے کی اطلاع ملتی ہے تواس خدمت پرمامورلوگ فوراپہنچ جاتے ہیں ۔ایک چھوٹااورکمزورمافیاہے جوبرف کے بت(سنومین)بناکران کے ساتھ تصاویربنوانے پربھی پیسے وصول کرتاہے ۔
ان سب میں سب سے بڑااورطاقت ورہوٹل مافیاہے ،ہوٹل مافیاہرموقع پرلوٹ مارکرتاہے مگراس سانحہ کے بعد جوداستانیں منظرعام پرآئی ہیں لوگ کانوں کوہاتھ لگارہے ہیں مری سے لے کرنتھیاگلی تک یہ ہوٹل مافیاایک ہی ذہنیت کامالک ہے ۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے کے مطابق جس کمرے کا کرایہ شدید برف باری شروع ہونے سے پہلے تین ہزار سے سات ہزار روپے یومیہ تھا، برف باری کے پہلے روز اس کمر ے کا کرایہ بیس ہزار روپے جبکہ دوسرے اور تیسرے روز ان کمروں کا کرایہ تیس سے چالیس ہزار روپے کردیا گیا۔ جب کچھ سیاحوں نے کرائے بڑھانے پر اعتراض کیا تو ہوٹل مالکان سیاحوں کمرہ خالی کرنے کا کہتے تھے۔
سرگودھا سے آئے سیاح ملک توقیر حسین کا کہنا تھا کہ وہ جمعرات کے روز اپنے چار بچوں اور بیگم کے ہمراہ مری پہنچے تھے۔شدیدبرف باری شروع ہوتے ہی میں نے 20 ہزار روپے دے کر کمرہ حاصل کیااگلی صبح جب اٹھے تو ہوٹل مالکان نے مجھ سے کہا کہ اگلے روز کے لیے کمرہ حاصل کریں یا ہوٹل چھوڑ دیں۔ لاہورسے تعلق رکھنے والی نگینہ خان نے بتایاکہ ہوٹل والوں نے میرے خاوند سے 40 سے لے کر 50 ہزار روپے تک کرایہ مانگا۔ ہمارے پاس کوئی 30 ہزار روپے تھے۔ ان سے کہا کہ یہ 30 ہزار رکھ لو مگر وہ نہیں مانے۔نصرت جہاں کا کہنا تھا کہ میرے خاوند اکبر مصطفی نے کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کا بھی کہا وہ نہیں مانے۔ ہم نے کہا کہ گاڑی، شناختی کارڈ رکھ لو حالات ٹھیک ہوں تو اے ٹی ایم سے پیسے نکال کر دے دیں گے۔ مگر وہ پھر بھی نہیں مانے۔ایک سیاح جہانداد نصیر کا کہنا تھا کہ ہم سے 50 ہزار کرایہ مانگا گیا۔ ہمارے پاس 50 ہزار سے کچھ پیسے کم تھے۔ رات گزارنے کے لیے اپنی اہلیہ کے زیور ہوٹل والوں کے حوالے کرناپڑا۔
جی ہاں یہ مری ہے جہاں ایک چھپرہوٹل کے نرخ بھی کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہیں۔ ایک سادہ ہوٹل میں کمرے کا کرایہ بھی پانچ ہزار سے شروع ہوتاہے جو سیاحوں کی تعدادبڑھنے کے ساتھ ہی پچاس ہزارتک پہنچ جاتاہے، بعض ہوٹلوں کے کمرے انتہائی بدبوداراورگندے ہوتے ہیں ناشتے ،ہیٹراورگرم پانی کے الگ چارجزہوتے ہیں ،ابھی دوہفتے قبل میرابیٹادوستوں کے ہمراہ سوات ،مالم جبہ اورکالام گیاتواس نے بتایاکہ وہاں چاربیڈ کاکمرہ گرم پانی کے ساتھ پندرہ سووپے میں میسرتھا ،پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے بہت سی جگہیں ہیں، مگر جتنی لوٹ مار مری میں کی جاتی ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور سیاحتی مقام پر کی جاتی ہو۔
کیاوجہ ہے کہ ہوٹل مالگان اتنی دیدہ دلیری سے یہ لوٹ مارکرتے ہیں تواس کی وجہ یہ ہے کہ ہوٹل مالکان کے پیچھے وہ طاقت ورمافیاہے جنھیں سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے یااسلام آبادمیں بیٹھے بڑے بزنس مین ان کے پیچھے ہیں جبکہ مری کاقبضہ مافیابھی اس لوٹ مارمیں برابرکاحصہ دارہے اورجب پی ٹی آئی ایم این اے کاسسرقبضہ مافیاکاسرغنہ ہوتوپھرانہیں کس کاڈرہے ؟مری سانحہ کی تحقیقات کے حوالے سے قائم کمیٹی ان مافیازکے حوالے سے بھی تحقیقات کرناچاہیے ۔
کیاکسی حکومت نے کبھی یہ تحقیق کرناگوارہ کی ہے کہ مری اورگلیات میں قائم یہ ہوٹل این اوسی اورنقشے کی منظوری کے بعدبنائے گئے ہیں ؟ان ہوٹلوں کی جس طرح کی آمدن ہے انہوں نے اس پر کتناٹیکس اداکیاہے ؟جنگلات کی بے دریغ کٹائی کرکے راتوں رات عمارت کھڑی کردی جاتی ہے عدالتی احکامات کونظراندازکردیاجاتاہے غیرقانونی عمارات کی بھرمارہے سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے عمارتوں میں بجلی اورگیس کی سہولیات حاصل کی جاتی ہیں اوورسیزکے پلاٹوںپرقبضہ کردیاجاتاہے ،سڑک اوردیگرراستوں پرعمارت کھڑی کردی جاتی ہے غرضیکہ مری میں کالادھن سفیدکرنے کاکھیل جاری ہے مگرمتعلقہ حکومتی اداروں نے آنکھیں بندکی ہوئی ہیں ۔
موجودہ حکومت کادعوی ہے کہ وہ سیاحت پرخصوصی توجہ دے رہی ہے مگردیگرشعبوں کی طرح حکومت سیاحت کے لیے کوئی موثر نظام وضح کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے۔ مری میں سڑکوں پر ہونے والی یہ اموات یقینا ایک منفی پیغام بن کر دنیا تک پہنچی ہیں۔ جو حکومت ایک چھوٹی سی تحصیل مری کو نہیں سنبھال سکتی وہ پوری سیاحتی صنعت کو کیا سنبھال پائے گی؟ سانحہ مری کومنیرنیازی کی زبان میں یوں ہی بیان کیاجاسکتاہے کہ
کجھ اونج وِی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وِچ غم دا طوق وِی سِی
کجھ شہر دے لوگ وِی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وِی سی