مسجد،پارک یا کچھ اور؟

یہ توطے ہے کہ عالمی طاقتوں کی آشیربادکے بغیرہمارے ہاں کوئی بھی حکومت قائم نہیں ہو سکتی البتہ دیکھنایہ ہوتاہے کہ اس کے عوض ہماری قوم اورملک کو کیاقیمت اداکرناہوتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ یہاں جب بھی کوئی مذہبی ایشوکھڑاہوتاہے یاپیداکیاجاتاہے تواس کی آڑمیں یہ گھنائوناکھیل شروع کردیاجاتاہے ،اس وقت بھی عالمی طاقتوں کوخوش کرنے کے لیے پاکستان میں ایک مقابلہ جاری ہے،مغرب اورعالمی طاقتوں کی آنکھوں کاتارہ بننے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں اوراس جنگ میں ملک کی اسلامی شناخت ،مذہبی اداروں ،قوانین کوسب سے زیادہ نشانہ بنایاجارہاہے ۔ حکومت پہلے دن سے یہ باورکروارہی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کی سب سے بڑی محافظ ہے ،مذہبی انتہاپسندوں سے اسے خطرہ ہے اس لیے عالمی طاقتیں ان کے اقتدارکو تحفظ فراہم کریں ۔

عمران خان حکومت اقلیتوں کے حقوق کے نام پرساری واردات کررہی ہے ،اب یہ بات طشت ازبام ہوچکی ہے کہ موجودہ حکومت ایک ایجنڈے کے تحت برسراقتدارآئی تھی اورحکومت مسلسل اس ایجنڈے پرآگے بڑھ رہی ہے ،حکومت کے برسراقتدارآنے کے بعدتوہین رسالت کی ملزمہ آسیہ مسیح کوعدالت نے رہاکیاتوعمران خان نے اس کاکریڈٹ حاصل کیا۔ حکومت نے راتوں رات کرتارپورہ راہداری تعمیرکی اوراس کاافتتاح وزیراعظم عمران خان نے کرکے کریڈٹ حاصل کیا۔اسلام آبادمیںسرکاری زمین پر مندربنانے کی کوشش کی،اس کے ساتھ ساتھ 1947 میں جو مندر بے آباد ہو گئے تھے ،عمران خان کی حکومت ان کو مکینوں سے خالی کروا کر انہیں دوبارہ مندروں کی شکل میں بحال کروانے اور انہیں مرحلہ وار ہندووں کے حوالے کررہی ہے ،اور کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔

اس کریڈٹ لینے کاچکردیکھیں کہ اس وقت ملک میں دواقلیتی کمیشن کام کررہے ہیں ایک اقلیتی کمیشن کے سربراہ شعیب سڈل ہیں جن کادعوی ہے کہ وہ عدالت کے حکم پرکام کررہے ہیں دوسرااقلیتی کمیشن وزارت مذہبی امورکے تحت قائم کیاگیاہے ،اب کون سااقلیتی کمیشن قانونی ہے کسی کوکوئی علم نہیں؟مگردونوں برابرکام کررہے ہیں اقلیتوں کے نام پرقبول اسلام ،جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے ایسے ایسے بل اورقانون لائے جارہے ہیں کہ جن کااسلام اوراس ملک کی تہذیب ونظریاتی شناخت سے کوئی تعلق نہیں ۔

حکومت اگرگھنائوناکھیل کھیل رہی ہے تودیگرادارے کیسے پیچھے رہے سکتے ہیں کچھ عرصہ قبل کرک میں مندرکی غیرقانونی تجاوزات کی وجہ سے مقامی افرادنے احتجاج کیاجوبعدازاں مندرپرحملے کی صورت میں بدل گیا چیف جسٹس گلزار نے فوری طور پر قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے اس غیر قانونی زمین پر مندر کو دوبارہ تعمیرکرنے کا حکم دیا اور اسے قانونی کر دیا اورپھرمندرکی ازسرنوبحالی کی تقریب میں چیف صاحب ازخود شریک ہوئے ۔کہیں چرچ کے افتتاح کے لیے دوڑیں لگی ہوئی ہیں توکہیں سانحہ سیالکوٹ کی آڑمیں توہین رسالت قانون ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں غرضیکہ ہرکوئی دیہاڑی لگانے میں مصروف ہے ۔حکومت اوراس کے ادارے کسی مسجدیامدرسہ کے حوالے سے ایسی پھرتیوں کامظاہرہ کرتے نظرنہیں آرہے ۔

ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت ایسا ماحول بنایاجارہاہے کہ جس میں ملک کی اسلامی شناخت ختم کی جاسکے اس سے پہلے سکھرکی ایک عدالت نے انیس مساجد کو گرادینے کا حکم دیاتھا، ان میں سے ایک مسجد انگریز کے دور کی بھی شامل تھی جو ڈیڑھ سو سال پہلے تعمیر ہوئی تھی ۔اب تازہ واردات یہ ہے کہ عمران خان کی ریاست مدینہ کے منصف اعلی بضدہیں کہ طارق روڈ کراچی میں قائم مدینہ مسجدکوگرایاجائے،منگل کوسپریم کورٹ نے کراچی میں ایک پارک میں تعمیر کی گئی مدینہ مسجد کو مسمار کرنے سے روکنے سے متعلق وفاقی حکومت کی استدعا مسترد کر دی ہے ،عدالتی حکم پرقانونی ماہرین نے جوسوالات اٹھائے ہیں کیا ان کے جوابات مل سکتے ہیں؟ ایسی کون سی قیامت آن پڑی ہے کہ چیف صاحب کاغصہ مسجدگرانے سے کم پرٹھنڈا نہیں ہورہا؟وہ اپنی ریٹائرڈمنٹ سے قبل مدینہ مسجدکوشہیدکرنے کے درپے ہیں؟

بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ پارک اپنی آنکھوں سے بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ سوال توبنتاہے کہ اگر وہ گواہ بن گئے توپھرمنصف نہیں ہوسکتے ؟کیا سپریم کورٹ ٹرائیل کورٹ ہے،کیا مسجد کے خلاف کسی نے دعوی دائرکیاتھا۔ کیا مسجد کی مجلس منتظمہ،اہل محلہ اورسندھ حکومت کوسناگیا؟مسجداگرپارک کی زمین پربنی ہے تواس کے خلاف مقدمہ کہاں قائم کیاگیا ڈسٹرکٹ جج اور ہائی کورٹ کے پاس دواپیلوں کاحق کیوں سلب کیاگیا ؟کیا عدالتیں از خود بغیر دعوے اور شہادت کے فیصلے کرسکتی ہیں؟مفادعاملہ کے تحت اگرمسجدگرائی جارہی ہے توکیاعدالت کے سامنے کوئی ایک بھی ایساشخص پیش ہواہے کہ جس نے مسجدگرانے کی درخواست دی ہو، بلکہ اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ ہمیں پارک نہیں، مسجد چاہیے۔ اس سب کے باوجود بھی اگر مسجد گرانا لازم ہوچکا ہے تو پھریہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ایجنڈہ کچھ اورہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ کی صوبائی حکومت چاہے تو مسجد کے لیے متبادل زمین دے دے۔ایک طرف عدالت نے مسجد گرانے کا حکم اس لئے دیا کہ سرکاری زمین پر بنی ہے۔ اب سرکار کو ہی مسجدکے لیے دوسری زمین دینے کا حکم دیاجارہاہے۔ ایں چہ بوالعجبی است؟ بات اگرمتبادل زمین دینے سے حل ہوسکتی ہے تومسجدکی بجائے پارک کے لیے حکومت متبادل زمین مختص کرنے پرمعززجج صاحب راضی ہوجائیں گے ؟ ۔عدالتی فیصلے کی آڑمیں سرکاری افسران اورلبرل طبقہ یہ شورمچارہاہے کہ قبضے کی زمین پرمسجدبناناجائزنہیں ۔سوال یہ نہیں کہ حکومتی زمینوں پر تعمیر شدہ مساجد شرعی مساجد کہلائیں گی یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایسی مساجد کو گرایا جاسکتا ہے یا نہیں؟جبکہ مدینہ مسجدکامقدمہ ہی الگ ہے ۔

چالیس سال سے قبل تمام قانونی تقاضے پورے کرکے یہ مسجدبنائی گئی ہے ۔مدینہ مسجد کراچی کے پاس توباقاعدہ اجازت نامہ موجود ہے جو حکومت پاکستان اوراس کے اداروں سے لیاگیاہے یہی وجہ ہے کہ بجلی اور گیس سمیت ہر طرح کے سرکاری بل مسجد کے نام پر جاری ہو رہے ہیں، ہر سال مسجد کے نام پر آڈٹ بھی ہو رہا ہے، اس سب کے بعد بھی مسجدگرانے کی ضدکیوں کی جارہی ہے ،اصولی طورپر حکومت مدینہ مسجد والی زمین کے بارے میں فریق نہیں ہے کیونکہ حکومت کو اس مسجد سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر حکومت کو فریق مان لیا جائے تو گزشتہ روز اٹارنی جنرل نے عدالت میں چیف جسٹس کو فیصلے پر نظرثانی کے لیے کہا ہے لیکن اس کے باوجود عدالت کا اپنے فیصلے پر مصر رہنا معنی خیز اور قابل تعجب ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارک سے تجاوزات گرانے کا حکم واپس نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر عدالت نے اپنے کیے ہوئے فیصلے واپس لینے ہیں تو پھر اس تمام کارروائی کا کیا فائدہ؟ہمیں نہیں معلوم کہ مسجدگرانے سے عدالت کوکیافائدہ ہوگا مگرپچھلے ہفتے کی ہی بات ہے کہ اسی عدالت نے کراچی کے ایڈمنسٹریٹرمرتضی وہاب کی برطرفی کافیصلہ واپس لیاتھا کیامرتضی وہاب کی برطرفی کے فیصلے اوراس فیصلے کے واپس لینے کاعدالت کوئی فائدہ ہواتھا ؟

میں حیران ہوں کہ معززجج صاحبان ایسے ریمارکس کیوں دے رہے ہیں کہ جن کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں جج صاحب نے مسجدکیس میں ریمارکس دیتے ہوئے یہ بھی کہاکہ زمینوں پر قبضے کے لیے مذہب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔جج صاحب بتائیں گے کہ مذہب کے نام پرکتنی زمینوں پرقبضہ کیاگیاہے ؟اس ملک میں سینکڑوں غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں قبضے کی زمینوں پربنائی گئی ہیں،غریبوں کی زمینوں پرقبضے کے ہزاروں مقدمات انہی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں کیاجج صاحبان بتائیں گے کہ ایسابھی کوئی مقدمہ ہے جس میں کسی نے درخواست دی ہوکہ اس کی زمین پرغیرقانونی طریقے سے مسجدقائم کی گئی ہے ؟یاپھرکسی بیرونی ایجنڈے کے تحت مدینہ مسجدکوگرایاجارہاہے؟

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

عمر فاروق

عمر فاروق سینئر صحافی ہیں، روزنامہ اوصاف سے طویل عرصہ تک وابستہ رہے ان کی مذہبی تحریروں کو پسند کیا جاتا ہے
Back to top button