آن لائن کا ٹوپی ڈرامہ

انٹرنیٹ آنے کے بعد اکثر ممالک کا نظام آن لائن ہو چکا ہے، جس سے وہاں کے عوام مستفید ہو رہے ہیں، وقت کی بچت ہوتی ہے، جس کام کیلئے آپ کو سفر کی مشقت اٹھانا پڑتی تھی اب وہ کام آسان ہو چکا ہے بس آپ کے پاس انٹرنیٹ اور سمارٹ موبائل فون ہونا چاہئے، اگر آپ کے پاس انٹرنیٹ یا سمارٹ فون نہیں بھی ہے تو آپ کسی سے درخواست کر کے اپنا کام کروا سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت دیکھا جائے تو پاکستان میں آن لائن نظام کا ڈھنڈورا تو پیٹا جاتا ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں آن لائن نظام کا ’’ٹوپی ڈرامہ‘‘ ہی ہے، حقیقت میں سارا نظام مینئول اور روایتی انداز میں ہو رہا ہے، وہی پرانے رجسٹر اور کمپیوٹر سسٹم پر کام کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آن لائن سسٹم کیا ہے؟

آن لائن سسٹم کو آسان لفظوں میں سمجھنے کیلئے کہا جا سکتا ہے کہ آپ متعلقہ ادارے کے کسی بھی آفس کی کسی بھی برانچ سے اپنا پورا کام کروا سکیں۔ آپ کے قومی شناختی کارڈ نمبر کے اندراج سے آپ کا مکمل دیٹا سامنے آ جائے اور اس آن لائن سسٹم سے ایک ہی ونڈو سے آپ کا پورا کام ہو جائے۔ اگر آپ کو دیگر شہروں یا دیگر دفاتر کے چکر لگوائے جاتے ہیں یا ایک کاؤنٹر سے دوسرے کاؤنٹر یا متعدد کاؤنٹر پر بھیجا جاتا ہے تو جان لیں کہ جس آن لائن سسٹم کا ہنگامہ برپا کیا جا رہا ہے وہ آن لائن سسٹم نہیں ہے۔ ہم جس آن لائن سسٹم کی بات کرتے ہیں دراصل وہ رجسٹر سے کمپیوٹر پر منتقلی ہے یعنی چند سال پہلے جو امور رجسٹروں پر نمٹائے جا رہے تھے اب وہ امور کمپیوٹر پر کئے جا رہے ہیں، کمپپوٹر کے اس نظام سے کسٹمرز سے زیادہ دفتری عملے کو فائدہ ہوا ہے۔

موبائل فون کمپنیوں اور بینکنگ سسٹم کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا نظام کافی حد تک آن لائن ہے، آپ ایک بینک کی کسی بھی برانچ میں کھڑے ہو کر اپنا کام کروا سکتے ہیں جس میں آپ کو ون ونڈو کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ دیکھا جائے تو آن لائن سسٹم کو رائج کرنے میں پرائیویٹ کمپنیوں کی محنت شامل ہے، سرکاری ادارے اب بھی روایتی انداز میں کام کر رہے ہیں۔

ریلوے کے بارے ہنگامہ برپا کیا گیا کہ ٹرین کا نظام آن لائن ہو چکا ہے، لیکن جب انسان کو اس سے واسطہ پڑتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس دعوے میں حقیقت نہیں ہے، گزشتہ دنوں اسلام آباد میلوڈی سے ملتان کا ٹکٹ لیا جو مل گیا، میں نے ملتان سے واپسی کیلئے ٹکٹ حاصل کرنا چاہا تو بتایا گیا کہ اس کیلئے آپ کو مارگلہ اسٹیشن یا راولپنڈی صدر جانا پڑے گا میں نے استفسار کیا کہ ٹرین کا سسٹم آن لائن نہیں ہے؟ ریلوے ریزرویشن آفس کے اہلکار کہنے لگے کہ جی سسٹم تو آن لائن ہے، میں نے کہا کہ جب سسٹم آن لائن ہے تو پھر ٹکٹ کیوں نہیں دے رہے؟ بولے ہمارے پاس صرف لاہور کے ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار ہے، میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا کہ پھر یہ کیسا آن لائن سسٹم ہے جس سے عوام محروم ہیں۔

آپ کسی بھی سرکاری دفتر چلے جائیں آپ کو مکمل آن لائن سسٹم دکھائی نہیں دے گا، اگر کہا جائے کہ ہمارے ہاں جن اداروں میں آن لائن سسٹم موجود ہے وہاں پر پچاس فیصد بھی آن لائن کام نہیں ہو رہا ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا جبکہ جن اداروں میں آن لائن سسٹم رائج نہیں ہوا ہے ان کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔

ہمیں اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، جن ممالک نے ترقی کی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے عوام کے قیمتی وقت کو بچایا ہے، جبکہ ہم نے عوام کے قیمتی وقت کو دفتروں کے چکر لگوا کر برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہم سعودی عرب گئے تو معلوم ہوا کہ ٹریفک خلاف ورزی پر چالان عوام کی دسترس میں ہے، غلط پارکنگ کا تصور ختم ہو چکا ہے کیونکہ اگر آپ کے گاڑی کے پیچھے کسی نے کار پارک کر دی اور آپ کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا تو آپ اپنا موبائل فون نکالیں اور غلط پارک کی گئی گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تصویر لے کر متعلقہ ایپ پر سینڈ کر دیں، گاڑی کا مالک جہاں بھی ہو گا اسے چالان کی کاپی اس کے موبائل فون پر سینڈ ہو جائے گی۔

اس کے برعکس وطن عزیز میں غلط پارکنگ ایک اہم مسئلہ ہے اور طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جب کسی نے اپنی گاڑی غلط انداز میں پارک کر دی ہے تو پھر وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ الٹا دوسروں کو برا بھلا کہنا شروع ہو جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر اپنے عوام کو فائدہ پہنچایا ہے جبکہ ہم نے انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کیا ہے جو ہماری تباہی کا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔

دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن اور نمبر پلیٹ کا حصول آسان و آن لائن بنا دیا گیا ہے مگر مجال ہے کہ آپ درست طریقہ کار اختیار کر کے گاڑی کی رجسٹریشن کروا سکیں، آپ کو خجل خوار ہونا پڑے گا جب کئی دن گزرنے کے باوجود آپ کام نہیں کروا سکیں گے تو مجبوراً آپ کسی ایجنٹ سے رابطہ کریں گے یا ایکسائز عملے کی مٹھی گرم کر کے اپنا کام کروائیں گے اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔

حقائق کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اداروں کے سربراہاں جان بوجھ کر سسٹم کو خراب رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی اضافی آمدن کا سلسلہ چلتا رہے۔ اگر نظام کو آن لائن کر دیا جائے تو اوپر سے لیکر نیچے تک ہزاروں لوگوں کے پیٹ پر لات پڑے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ جب ریاست اپنے شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھائی گی تو شہری ریاست کے ساتھ کس طرح مخلص رہیں گے، یوں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جسے گہرائی تک درست کرنے کی ضرورت ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ ابھی تک درست سمت کا تعین ہی نہیں ہو سکا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button