بیس دن کی منصوبہ بندی!

سیاسی سرگرمیاں کسی حادثے کی نوید سنا رہی ہیں، حکومتی وزراء کی بے چینی اس کا بین ثبوت ہے، بوکھلاہٹ میں حکومتی ترجمانوں کے بیانات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے، وفاقی وزیر داخلہ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں، تعلقات کی مضبوطی کی وہ یہ دلیل پیش کرتے ہوئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں 20 دن کی 20 سال کی ہوتی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ حکومتی وزراء اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا صاف انکار کرتے رہے ہیں تاہم اب ببانگ دہل اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کے ’’سر سے ہاتھ نہیں اٹھا‘‘ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف پر جو الزامات عائد کرتی رہیں ہیں وہ مبنی برحق تھے۔ ایسے حالات میں سول بالادستی اور جموریت کا دعویٰ کیسے کیا جاتا ہے۔

جموریت میں جب تک بے ساکھیوں کا تصور رہے گا وہ کبھی بھی ثمر آور نہیں ہو سکے گی۔ اس مداخلت کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم طویل المدتی منصوبے نہیں بنا پاتے ہیں،تحریک انصاف کی حکومت سے قبل دو پارٹی سسٹم رائج تھا، کہا جاتا تھا کہ انہی پارٹیوں کی باریاں لگی ہوئی ہیں، جب تحریک انصاف نے دو بڑی سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری توڑی تو امید ہو چلی تھی کہ اب ملک میں حقیقی جمہوریت رائج ہو گی لیکن یہ باتیں امید تک ہی محدود رہیں، اب جا کر عقدہ کھل رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی پرانے نظام کا تسلسل ہے، اس قدیم سسٹم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آج تک طویل منصوبہ بندی نہیں ہو سکی ہے، جمہوریت اور آمریت کے ادوار میں شروع کئے گئے پروجیٹکس کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تین سال سے زیادہ کوئی پروجیکٹ تشکیل نہیں دیا گیا ہے، ایک ہی پروجیکٹ کو لانگ ٹرم منصوبہ قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ ہے پاک چائنہ اقتصادی راہدراری۔

تاہم یہ منصوبہ بھی چین کے مرہون منت ہے اس لئے یہ وقت کے ساتھ ساتھ پھل پھول رہا ہے، اگر چین اس میں شریک نہ ہوتا تو اس کا حشر بھی دیگر منصوبوں سے مختلف نہ ہوتا۔ گاؤں دیہات اور چھوٹے شہروں کا تو خیر کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے، بڑے شہروں کی پھیلتی آبادیوں کے پیش نظر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے، آج جو ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہے انہیں آباد ہوتے وقت لگے گا، یہ سوسائٹیاں جب مکمل طور پر آباد ہوں گی تو اس وقت نئے مسائل سامنے آئیں گے کیونکہ آبادی کیلئے صرف اچھے گھر اور کشادہ سڑکوں کی ہی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ ہسپتال، تعلیمی ادارے، عدالتی نظام اور ریاستی ڈھانچے کی اشد ضرروت ہوتی ہے، بدقسمتی سے قلیل المدتی منصوبہ بندی کے تحت اہم ضروریات کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ طویل المدتی منصوبہ بندی کیوں نہ ہو سکی ، اس کے اگرچہ کئی عوامل ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ سیاسی عدام استحکام اور ہمارے ہاں رائج جمہوری سسٹم ہے۔

1948میں وزیراعظم خان لیاقت خان نے پارلیمنٹ میں پانچ سالہ منصوبہ جاتی پروگرام پیش کیا اور 1955میں ملک کے پہلے پنج سالہ ترقیاتی منصوبے کا آغاز ہوا جو مختلف وجوہات کی بنا پر مؤثر نہ ہوسکا۔ اس کے بعد1960-65کے پروگرام میں سب سے زیادہ توجہ بھاری صنعت، مواصلات، ریلوے، زراعت اور صنعتوں پر مرکوز رہی جس سے ان شعبوں کی ترقی کے ساتھ ملک میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوئے۔ مشرقی ومغربی پاکستان میں پانی و بجلی کے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز بھی اسی دوران ہوا، منگلا ڈیم کی تعمیر اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جو آگے چل کر تربیلہ ڈیم کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔

تیسرے پنج سالہ منصوبے 1965-70کی خاص بات ملک کی خام پیداوار میں 122فیصد کا اضافہ تھا اس دوران نجی شعبے کی حوصلہ افزائی ہوئی جس سے صنعتی عمل اور سرمایہ کاری میں تیزی آئی۔ تاہم چوتھا منصوبہ شروع ہونے کے اگلے ہی برس مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا المیہ اور پھر باقی کا عرصہ نجی اداروں کے قومی تحویل میں لیے جانے میں گزر گیا۔ پانچواں اور چھٹا منصوبہ 1978ء-83اور1983ء-88 افغانستان سوویت جنگ کی نذر ہوگیا جس کے اثرات سرمایہ کاری، زراعت، صحت و تعلیم پر اچھے نہیں پڑے۔ اگست 1991ء میں آٹھویں منصوبے کے لیے ورکنگ گروپ کی بنیاد رکھی گئی تاہم یہ منصوبہ بھی مؤثر نہ ہوسکا اور بالآخر 2004ء میں قومی منصوبہ بندی کمیشن نے پانچ سالہ منصوبہ بندی کو وسط المدتی ترقیاتی فریم ورک کا نام دیا۔

اس جمہوری سسٹم کے تحت اقتدار میں آنے والی ہر حکومت نے ترقیاتی کاموں کو اپنے اپنے دور تک محدود رکھا، یوں دیکھا جائے تو ہم طویل المدتی منصوبہ کے فقدان کی وجہ سے ترقی کی راہ میں پیچھے ہیں، اس کی ذمہ داری کسی ایک سیاسی جماعت پر نہیں ڈالی جا سکتی ہے، اقتدار میں رہنے والی ہر حکومت اس کی ذمہ دار ہے، آج اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کو ناکام حکومت قرار دے کر اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہیں اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں تو کہ کیا گارنٹی ہے کہ ہمارے مسائل ٹھیک ہو جائیں گے، یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جس سسٹم اور قلیل المدتی منصوبہ بندی کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اس سے قرضوں کے حجم میں اضافہ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔

اس لئے ہر سیاسی جماعت اور کسی بھی اعتبار سے اقتدار میں شامل افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک و قوم کی خاطر مشترکہ اجلاس بلا کر بیس سالہ ترقی کا منصوبہ پیش کریں اس منصوبے کو حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی فرق نہ پڑے، پوری قوت کے ساتھ یہ منصوبہ آگے چلتا رہے، یہی ایک حل ہے جو ہمیں مسائل کے گرداب سے باہر نکال سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے متعدد حکومتوں کو ناکامی کی بنا پر وقت سے پہلے رخصت کیا جا چکا ہے، اس کے منفی نتائج ہی نکلے ہیں، اگر موجودہ حکومت کو بھی رخصت کر دیا گیا اور اصل مسئلے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو ہمارے مسائل کبھی بھی حل نہ ہو سکیں گے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button