ناکامی کا ایک اور سال بیت گیا

2021ء کا اختتام:بحیثیت قوم ہمیں بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال ہم نے کس میدان میں کامیابی حاصل کی اور کس میدان میں پیچھے رہ گئے

سال2021ء مکمل ہونے میں محض چار دن باقی ہیں، پھر نئے سال کا سورج طلوع ہو گا، ہر نیا سال قوموں کیلئے نئی امیدیں لے کر طلوع ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں نئے سال کا جشن منا کر اسے ویلکم کیا جاتا ہے تاہم اس دوران قومیں جائزہ لیتی ہیں کہ گزشتہ سال کن اہداف کے حصول میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کامیابیوں کی شرح کیا رہی، کیونکہ غلطیوں سے سیکھ کر ہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ بحیثیت قوم ہمیں بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال ہم نے کس میدان میں کامیابی حاصل کی اور کس میدان میں پیچھے رہ گئے۔ حکومت کو نئے سال کے آغاز سے پہلے جائزہ لینا چاہئے کہ اہداف کے حصول میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئی ہے، اہداف کے حصول کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کہاں کھڑے ہیں اور ان کے مقابلے میں ہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں، اور وہ کونسی وجوہات تھیں جو ہماری ناکامی کا باعث بنی ہیں۔ سال 2021ء کے سرسری جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سال ہمارے لئے مسائل میں کئی گنا اضافہ کر گیا ہے، معیشت کی تباہ حالی سمیت ہمارے بیرونی قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
ڈالر کی اونچی اڑان
سال 2020ء میں امریکی ڈالر کی قیمت 155-160 تک تھی، تاہم ایک سال کے دوران ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور یہ تاریخ کی بلند ترین سطح 180 تک جا پہنچی، تاہم گزشتہ چند روز میں ڈالر کی قیمت میں معمولی گراوٹ آئی ہے جو اس وقت 178روپے 15پیسے ہے،حکومت نے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور غیر قانونی سمگلنگ کو اس کی قیمت میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، اور ڈالر سے جڑی ہر چیز کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے جس کا بوجھ عوام کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔
مہنگائی میں ہوشربا اضافہ
سال 2020 ء میں مہنگائی کی شرح10.74 فیصد تھی،تاہم اب مہنگائی کی شرح بڑھ چکی ہے ، دسمبر کے شروع میں جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں ملک میں مہنگائی کی شرح یعنی افراطِ زر 11.5 فیصد رہی جبکہ اکتوبر میں یہ شرح 9.2 فیصد تھی۔ حکومت اعداد وشمار پیش کر کے مؤقف اختیار کرتی ہے کہ مہنگائی کی شرح خوفناک حد تک نہیں بڑھی ہے اور یہ کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت اب بھی پاکستان میں مہنگائی کم ہے تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام کیلئے موجودہ حالات میں دو وقت کی روٹی کا حصول بہت مشکل ہو گیا ہے۔ حکومت جب خطے کے دیگر ممالک میں مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات بھول جاتی ہے کہ وہاں پر فی کس آمدن پاکستان سے زیادہ ہے۔
اشیائے خورونوش مہنگی ہو گئیں
گزشتہ ایک سال کے دوران ملک میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اس مہنگائی سے سب سے زیادہ غریب اور تنخواہ دار طبقہ متاثر ہوا ہے، کیونکہ نجی اداروں میں مہنگائی کی شرح کے حساب سے تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کی طرف سے احساس پروگرام کے تحت جو سکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں اس سے غریب طبقہ کو فائدہ ہو رہا ہے لیکن یہ اقدام بھی وقتی ہے، بحران سے نکلنے کیلئے اس پروگرام کو مفید کہا جا سکتا ہے لیکن آخر کب تک حکومت اس پروگرام کو چلائے گی، لوگوں کو روزگار کی فراہمی اور تجارت کیلئے سازگار پالیسیاں ہی مسئلے کا مستقل حل ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
سال 2020 ء میں پٹرول کی قیمت 100روپے 69پیسے فی لٹر تھی، جو ایک سال کے دوران ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 145 روپے 82 پیسے فی لٹرتک پہنچی، تاہم گزشتہ ہفتے حکومت نے پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے تک کمی کی ہے جو اس وقت 140روپے روپے 82پیسے ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں میں اضافے کے باعث ٹرانسپورٹ کے کرائے اور بیسیوں دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، حالانکہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن اس اعتبار سے عوام کو فائدہ نہیں دیا جا رہا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدے کئے ہیں اس کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیتمیں ایک خاص حد سے نیچے نہیں لائی جا سکتی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے سخت شرائط عائد کی ہیں۔
بے روز گاری بڑھ گئی
سال 2020ء میں ملک میں بیروز گاری کی شرح تقریباً4.45 فیصد تھی جو اس وقت پانچ سے چھ فیصد ہے، اوسطاً بیروزگاری کی شرح میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ یہ درست ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے بے روزگار بڑھی ہے لیکن دیگر متبادل ذرائع بھی پیدا ہوئے ہیں، آئی ٹی اور آن لائن کاروبار بڑھ گیا ہے، بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم ان مواقع سے فائدہ اٹھانے میں بہت پیچھے ہیں۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اگر نوجوانوں کو سپورٹ کر دیا جائے تو نئے مواقع کی مناسب ٹریننگ دے دی جائے تو لاکھوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے۔
سیاسی عدم استحکام کے نقصانات
گزشتہ ایک سال کے دوران ملک بدستور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا، حکومت کسی اہم قومی معاملے پر اتفاق رائے پیدا نہ کر سکی، حکومت بڑے فیصلے کرنے سے قاصر رہی جس کا منفی اثر ملکی معیشت پر بھی بڑا۔ سیاسی چپقلش کی وجہ سے حکومت کو قانون سازی کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا رہا اور اس کے لئے اسے آرڈینس کا سہارا لینا پڑا جبکہ متعدد اہم بلوں کی منظوری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلا کر لی گئی۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں نے جن ایشوز پر ایوان کے اندر بات ہونی چاہئے تھی وہ چوک چوراہوں پر ہونے لگے، یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ملک میں عدم استحکام کی ذمہ دار حکومت و اپویشن دونوں ہیں۔
احتساب کا وعدہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا
تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد احتساب کے نام پر حزب اختلاف کے کئی رہنمائوں کے خلاف مقدمے چلائے گئے اور بعض رہنمائوں کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن عملی طور پر حکومت ابھی تک نہ تو کسی سیاسی مخالف کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت پیش کر سکی اور نہ ہی لوٹی گئی رقم وصول کی گئی حتیٰ کہ کئی رہنماء عدالتوں کی طرف سے بری بھی کر دیئے گئے۔ چنانچہ حکومت کڑے احتساب کے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود عملاً ابھی تک اس حوالے سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ بلاتفریق احتساب تحریک انصاف کے منشور کا بھی حصہ ہے لیکن اپوزیشن کی طرف سے جانبدارانہ احتساب الزام عائد کیا جاتا ہے اس میں کسی حد تک صداقت بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی حکومتی فرد کو کٹہرے میں نہیں لایا گیا ہے۔
بلدیاتی انتخابا ت میں دھچکا
تحریک انصاف کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے اسے خیبرپختونخوا میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، خیبرپختونخوا کے سترہ اضلاع میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور یہ شکست حکومتی جماعت نے تسلیم بھی کر لی ہے، وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے یہ الیکشن ہارے۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کو حکومتی جماعت کے لئے بڑا دھچکا قرار دیا ہے ۔اُن کا کہنا ہے کہ یہ عوام کی طرف سے حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار ہے ۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کے پی میں جے یو آئی کی کامیابی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی ناکامی ہے، عوام کے پاس کوئی آپشن نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ جے یو آئی کی طرف منتقل ہوا ہے۔
بیرونی قرضوں میں اضافہ
تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ملک کے قرضے ختم کر دی گی، عمران خان بار بار ماضی کے حکمرانوں کا نام لے کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے رہے کہ انہوں نے اپنی جیبیں بھرنے کیلئے قوم کو مقروض کر دیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اپنے دور حکومت میں بیرونی قرضوں میں ماضی کی نسبت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 31 دسمبر 2020 ء تک ملک کا مجموعی قرض 115.756 ارب ڈالر تھا جو اس وقت بڑھ کر 380کھرب روپے ہو چکا ہے، حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر)کے دوران 4ارب 69کروڑ90لاکھ ڈالر غیر ملکی قرضہ لیا،تحریک انصاف کے تین سالہ دور میں مجموعی طور پر 60فیصد اضافہ ہوا ہے، یوں دیکھا جائے تو قرضوں کا یہ حجم بہت زیادہ ہے۔
اہداف کے حصول میں ناکامی
گزشتہ ایک سال کی حکومتی کارکردگی کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے، تحریک انصاف کورونا کو جواز بنا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہی ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان کی معیشت کو بھی کورونا کی متاثر کیا ہے لیکن بروقت اقدامات کی وجہ سے اکثر ممالک میں نظام زندگی بحال ہو چکا ہے اور نئے مواقع سے فائدہ اٹھا کر کورونا کے نقصانات کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کا رجحاب بہت کم دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو ہمیں نئے سال کے آغاز پر سوچنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں، کیا ہمارے ارباب اختیار نئے سال کے آغازمیں غلطیوں کا جائزہ لینے کیلئے تیار ہیں، کیا ان غلطیوں کو آئندہ سال نہیں دہرایا جائے گا؟
تحریک عدم استحکام کا عندیہ
ایسے حالات میں جب ملک معیشت بحران کا شکار ہے اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو رخصت کرنے کی ٹھان لی ہے، اس حوالے سے ن لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کا گریبان پکڑنے کا وقت آ گیا ہے، مریم نواز کہتی ہیںکہ ہمارا حال تباہ کرنیوالا جانے کی تیاری کرے،مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کہتے ہیں کہ اندر مہنگائی باہر سفارتی تنہائی، نیا پاکستان بنانے کے دعویداروں نے پرانا بھی تباہ کر دیا ہے، کیا ان کے پاس غریبوں کی آہوں کا جواب ہے۔پی پی رہنما آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو نانی ویہڑہ سمجھ رکھا ہے،کسی کو اٹھاتے کسی کو بٹھاتے ہیں، لاہور،اسلام آباد میں خیمہ لگا کر فیصلہ کن جنگ کروںگا۔ حکومت کا مقابلہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان بھی حکومت کو گھر بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کے یہ بیانات اس بات کی طرف عندیہ ہیں کہ کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ عوام حکومت کو سپورٹ نہیں کر رہے ہیں اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ حکومت کو وقت سے پہلے رخصت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اگر اپوزیشن جماعتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو اس سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں سے نمٹنے کیلئے حکومتی لائحہ عمل
اپوزیشن جماعتوں سے نمٹنے کیلئے حکومت کارکردگی پیش کرنے کی بجائے روایتی انداز اپنانے پر مجبور ہے، اس حوالے سے وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ہمارا مقابلہ چھوٹے چھوٹے سیاسی بونوں سے ہے، نواز شریف اور آصف زرداری جلد وہیل چیئر پر نظر آئیں گے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں صفایا ہو گیا ہے، مریم نواز خیبر پختونخوا میں اپنی شکست کا جشن منا رہی ہیں، نواز اور زرداری جیسے لوگوں نے قرضے لے کر ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا، ہم نے پانچ سالوں میں ان کا لیا ہوا 55 ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا ہے، انہوں نے الزام عاید کیا کہ زرداری نے جب عدالت جانا ہوتا ہے تو وہ وہیل چیئر منگوا لیتے ہیں اور معذوروں کی گاڑیوں پر آنا جانا شروع کر دیتے ہیں، ضمانت ملنے کے بعد زرداری اپنے قد سے بڑی بڑھکیں ماررہے ہیں، آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کی وہ حالت کر دی ہے کہ آج پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب میں انتخابی امیدوار ہی نہیں ہیں، زرداری لاہور اور اسلام آباد کے چکر میں لاڑکانہ اور نواب شاہ جانے کے بھی قابل نہیں رہے، یہ جماعتیں صرف میڈیا کے سہارے زندہ ہیں، ان کی کوریج بند ہو جائے تو یہ فارغ ہو جائیں، ان کی سیاست اب مہنگائی پر پروپیگنڈہ کرنا رہ گئی ہے۔ اپوزیشن کے مقابلے میں حکومتی وزراء کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے پاس پیش کرنے کیلئے کوئی منصوبہ نہیں ہے، اسی لئے تو الزام کا جواب الزام سے دیا جا رہا ہے۔ حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر وہ اپوزیشن کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے جیسا کہ پہلے وہ پی ڈی ایم کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن خراب کارکردگی کے ساتھ عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہرگز نہیں ہو سکے گی۔ سو ضروری ہے کہ نئے سال کو ویلکم کرنے کے ساتھ ساتھ نئے عزائم کا اظہار کیا جائے جس میں عوامی مسائل کا حل اور خدمت کو ترجیح اول میں شامل کیا جائے اگر حکومت عوام کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر اسے اپوزیشن سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہو گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button