پختون سماج نے تحریک انصاف کیخلاف فیصلہ سنا دیا
خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ہے،الیکشن کے روز سترہ اضلاع میں بدانتظامی اور لڑائی جھگڑے کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن کی تفصیلات میڈیا پر آ چکی ہیں، تاہم ایک روز بعد بھی حتمی اور مکمل نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں، توقع کی جا رہی ہے کہ 24 دسمبر تک سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا، جن اضلاع کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج سامنے آئے ہیں، وہاں پر اکثر اضلاع میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی کی اطلاعات ہیں۔ جے یو آئی کے رہنما مفتی کفایت اللہ نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ ’’وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور، وزیر مملکت علی محمد خان، وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وفاقی وزیر عمر ایوب اور شہریار آفریدی اپنی اپنی تحصیل ہار چکے ہیں، جبکہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کو کوہاٹ میں شکست کے ساتھ مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔‘‘
اب تک کی اطلاعات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کو مجموعی طور پر برتری حاصل ہوئی ہے ، پشاور میئر کی نشست کو اہم تصور کیا جا رہا تھا وہ سیٹ بھی جے یو آئی کے امیدوار زبیر علی نے حاصل کر لی ہے انہوں نے 62 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے رضوان بنگش رہے ہیں جنہوں نے 50ہزار ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اس کے برعکس حکمران جماعت کو اکثر اضلاع میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اپوزیشن گو جیت کا جشن منا رہی ہے مگر وہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ جن حلقوں کے نتائج کا اعلان نہیں کیا جا رہا ہے وہاں کے نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
حکمران جماعت کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑا اور اس شکست کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں ذیل کی سطور میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے آٹھ سالوں سے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور یہ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو حکومت کرنے کا ریکارڈ وقت ملا ہے مگر ان آٹھ سالوں میں حکومت کی کارکردگی مثالی نہیں رہی ہے، سو عوام کی اکثریت نے کارکردگی کی بنیاد پر حکومت کے خلاف ووٹ دیا ہے، حالانکہ جن سیاسی جماعتوں کی حمایت میں ووٹ دیا گیا ہے وہ بھی اس سے پہلے اقتدار میں رہ چکی ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کے خلاف ووٹ دینے کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام حکومت پر اعتماد کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج حکمران جماعت کیلئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے سبق حاصل کر کے کیا تحریک انصاف کارکردگی میں بہتری لانے پر توجہ دے گی؟
حکومت اب یہ جان لینا چاہئے کہ بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کی اہم وجہ مہنگائی ہے، اس حوالے سے ہم نے سینکڑوں لوگوں سے بات کی تو ان کا جواب مہنگائی میں اضافہ تھا کہ مہنگائی کے اس دور میں گزارہ مشکل ہو گیا ہے، بالخصوص تنخواہ دار طبقہ بہت مشکلات سے دوچار ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما خود بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت کی مقبولیت تو ہے مگر مہنگائی کی وجہ سے شکست ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہنگائی کس قدر بڑھ چکی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات بھی بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوئے ہیں، کیونکہ خیبرپختونخوا کے عوام کافی حد تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کے حامی ہیں، یوں جے یو آئی کو افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی حکومت سے کافی فائدہ ہوا ہے، عین ممکن ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں صوبائی حکومت میں جے یو آئی کی حکومت یا شراکت داری ہو۔
بلدیاتی انتخابات کے نتائج توقع کے مطابق نہ آنے پر حکمران جماعت کی قیادت تشویش کا شکار ہے مگر اسے نوشتہ دیوار سمجھنا چاہئے کیونکہ ایک عرصے سے کہا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف کو دعوؤں، نعروں اور احتساب کے نعرے کے آگے سوچنا ہو گا لیکن بوجوہ حکمران جماعت اس زعم کا شکار رہی کہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، تحریک انصاف ہی عوام کی مقبول جماعت ہے، حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کو کوئی چیز عوام میں مقبول بنا سکتی ہے تو وہ کارکردگی ہے۔ تحریک انصاف کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ عوام دوست پالیسیاں بنا کر عوامی سیاست کو فروغ دے، اس مقصد کیلئے سب سے پہلے مہنگائی میں کمی کرنی ہو گی، روزگار کی فراہمی اور گھروں کی فراہمی جیسے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا۔ تحریک انصاف کو سوچنا ہو گا کہ خیبرپختونخوا کے عوام کو صحت کارڈ دینے کا انہیں سیاسی فائدہ نہیں ہو سکا ہے، باوجود اس کے کہ صحت کارڈ فراہمی کا منصوبہ ہر خاندان کی ضرورت ہے عوام اس سے بھی متاثر نہیں ہوئے ہیں، کیونکہ عوام دو وقت کی روٹی چاہتے ہیں، لہذا جو مدت باقی رہ گئی ہے اس میں ایسا لائحہ عمل طے کیا جائے کہ جس سے مہنگائی کم ہو اگر تحریک انصاف مہنگائی کم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو اسے نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے جس صورتحال کا سامنا بلدیاتی انتخابات میں کرنا پڑا ہے ایسی ہی صورتحال کا عام انتخابات میں بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔