مدینہ منورہ میں سماجی تشکیل کے مراحل

مدینہ کی آبادکاری کے وقت جب بعض صاحب ثروت صحابہ نے عالیشان مکان بنانے کی خواہش ظاہر کی تو حضور علیہ السلام نے اس کو ناپسند فرمایا

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلا کام جس کا آپؐ نے اہتمام فرمایا وہ مسجد نبوی کی تعمیر کا تھا۔ مواخاۃ کے ذریعے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے سے وابستہ قرار دیا اور منشور مدینہ یا دستور مدینہ مرتب فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مدینہ منورہ کے مقامی نظم و نسق پر بھی توجہ دی۔ ٹائون پلاننگ کے بارے میں بھی بعض ہدایات دیں۔ مدینہ منورہ کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ تعمیرات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا ۔ مکہ مکرمہ سے آنے والے بہت سے حضرات نے وہاں زمینیں خریدیں اور اپنے مکانات بنائے۔ چھوٹے مکان بھی بنائے گئے، بڑے مکانات بھی بنائے گئے اور بعض صورتوں میں یہ بھی ضرورت پیش آئی کہ مکانات کے نقشے اس طرح بنائے گئے کہ مدینہ منورہ کی آبادی کے لیے کسی مشکل کا ذریعہ نہ ہوں۔ چنانچہ گلیاں کیسے بنائی جائیں اور مکانوںکے درمیان کتنا فاصلہ رکھا جائے، اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایات جاری فرمائیں۔ ایک سیرت نگار نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گلی میںکم از کم سات ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہیے ۔ گلی میں ایک طرف کے مکان اور دوسری طرف کے مکان کے درمیان فاصلہ کو ہاتھ کی لمبائی سے ناپا جاتا تھا۔ اگر ایک ہاتھ ڈیڑھ فٹ لمبا ہوتا تو سات ہاتھ سے مراد یہ ہے کہ ساڑھے دس فٹ کے قریب چوڑی گلیاں ہونی چاہئیں۔ ظاہر ہے اس زمانے میں گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں ۔ لوگ سواریوں پر سوار ہو کر سفر کرتے تھے۔ اس لیے اتنے فاصلہ میں دو سواریوں کا آسانی سے گزرنا ممکن ہے۔ اگر اس سے کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ گلیوں اور سڑکوں میںاتنا فاصلہ ہونا چاہیے کہ آمنے سامنے سے آنے والی دو گاڑیاں بیک وقت گزر سکیں۔

مدینہ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ فتح مکہ تک جاری رہا۔ ان کی آبادکاری بھی ہوتی رہی ۔ اس مقصد کے لیے مکانات بنانے کی ضرورت بھی پیش آتی رہی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی بڑی عالیشان عمارتوں کی تعمیر کی حوصلہ شکنی فرمائی۔ بعض صحابہ جو اصحاب ثروت میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے ذرا بڑے مکان بنانے کی خواہش ظاہر کی تو حضور علیہ السلام نے اس کو ناپسند فرمایا۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، جو رشتہ میں حضور کے ماموں بھی تھے ، مکہ مکرمہ کے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ انہوں نے ایک بڑا مکان بنانا چاہا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو ناپسند فرمایا۔ جب ان کو حضور کی ناپسندیدگی کی اطلاع ملی تو انہوں نے مکان کا وہ حصہ گرا دیا جس کو دیکھ کر حضور نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ یہ اس لیے تھا کہ شہر میں آبادی تیزی سے پھیل رہی تھی ۔ بہت سے لوگ جو شہر میں آ کر بس گئے تھے ضروری مالی وسائل نہیں رکھتے تھے۔ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ بڑے بڑے مکانات تعمیر کر سکیں۔ اس لیے ان حالات میں اگر بڑی بڑی عمارتیں بنانے کی اجازت دی جاتی تو ایک ایسی رو یا ایسی مسابقت کے پیدا ہونے کا امکان تھا کہ دولت مند اور اہل ثروت لوگ بڑے بڑے مکانات بنانے لگیں اور مدینہ منورہ میں جگہ کی قلت ہو جائے اور یوں اس کی وجہ سے نئے آنے والوں کے مکانات کی تعمیر مشکل ہو جائے ۔ کشادہ اور آرام دہ مکان کی آپؐ نے تعریف فرمائی اور ایک حدیث میں ایک مکان کی ضروریات کی نشاندہی بھی فرمائی کہ ایک مکان میں آدمی کے اپنے رہنے کے لیے کمرہ ہونا چاہیے۔ اس کے بچوں کے لیے کمرہ ، مہمانوں کے لیے کمرہ ، ملازموں اور خادم کے لیے کمرہ ، اس کے علاوہ اگر غیر ضروری کمرے بنائے جائیں تو اس کو پسند نہیں فرمایا گیا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ جو ناگزیر ضروریات ہیں ان کا بندوبست مکان میں ہونا چاہیے ۔ اس کے علاوہ غیر ضروری طور پر بڑے بڑے مکان بنانا اور شان و شوکت کا اظہار کرنا اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے۔

ہجرت کے فوراً بعد مدینہ منورہ کی آبادی کتنی تھی؟ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ بعض مؤرخین نے اس کا اندازہ دس اور پندرہ ہزار کے درمیان کیا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے ’’دس ایک ہزار‘‘۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دس گیارہ ہزار یا اس کے لگ بھگ ہو گی۔ بعض حضرات نے پندرہ ہزار لکھا ہے جو زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ قبائل کی وہ تفصیل جو علامہ سمہودی کے ہاں ملتی ہے اس میں جہاں قبیلہ اور عشیرہ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں دس یا پندرہ ہزار سے کم آبادی نہیں رہی ہو گی۔ یہودی قبائل کی تعداد دس اور عرب قبائل کی تعداد بارہ تھی۔ یہ وہ قبائل تھے جو مدینہ منورہ میں پہلے سے آباد تھے۔ جن کی تعداد بائیس سے کم نہیں تھی اور پچیس سے زیادہ نہیں تھی۔
مدینہ منورہ تشریف لانے کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردم شماری بھی کروائی۔ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ آپ نے فرمایا:’’ میرے لیے ان تمام لوگوںکی ایک فہرست تیار کر دو جو مسلمان ہو چکے ہیں‘‘ گویا مسلمان باشندوں کی پہلی مردم شماری ہجرت کے بعد ہوئی ۔ مدینہ منورہ کی اس آبادی کے علاوہ قرب و جوار کے لوگ بھی ایک ایک کر کے اسلام قبول کر رہے تھے اور مدینہ منورہ آ کر آباد ہو رہے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کی تعداد اور مدینہ منورہ کی آبادی میں کثرت سے اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ قبائل چونکہ ہجرت کر کے آ رہے تھے اس لیے ان کا واسطہ مہاجرین اور انصار کے ساتھ اس امت کے واسطہ سے تھا جو میثاق مدینہ کی شکل میں قائم ہو گئی تھی۔ اس لیے ان کو مدینہ منورہ میں آباد ہونے میں اور وہاں کے ماحول میں گھل مل جانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔

مدینہ منورہ میں سب سے پہلا انتظامی معاملہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھا، وہ امن و امان کا مسئلہ تھا کہ ان متنوع قبائل کی موجودگی میں، جن میں لگ بھگ آدھے دشمن قبائل تھے ، شروع میں غیر مسلموں کی اکثریت تھی، ان سب میں امن و امان کیسے قائم کیا جائے۔ خاص طور پر باہر سے آنے والے مسلمانوں کو سیکورٹی کیسے فراہم کی جائے۔ مدینہ منورہ میں جرائم کے واقعات پہلے کثرت سے ہوتے رہتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے بعد جرائم میں بہت کمی آ گئی۔ لیکن پھر بھی قتل، چوری، بدکاری ، شراب نوشی ، ڈاکہ اور اغواء وغیرہ کے اِکا دُکا واقعات یہودی کرتے رہتے تھے۔ ایک ایک کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان واقعات کا سدِباب کیا ۔ راتوں کو مدینہ منورہ میں پہرے کا انتظام کیا ۔ بعض افسران کا تقرر بھی کیا جن کو ہم پولیس افسران کہہ سکتے ہیں۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری ، جو ایک نمایاں انصاری سردار تھے ، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے امن وامان کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس طرح ان کو ہم مدینہ کا پہلا پولیس افسر کہہ سکتے ہیں۔ ان کے مقرر کردہ کارندے ہوتے تھے جو شہر کے مختلف علاقوں اور قریب کے دیہاتوں میں جا کر امن وامان کا فریضہ انجام دیا جا کرتے تھے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں امن وامان کا فریضہ انجام دیتے تھے جہاں مسلمان آبادیاں زیادہ تھیں ۔جیسے جیسے مسلمان آبادیاں بڑھتی گئیں ، امان و امان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ غیر مسلم آبادیاں جیسے جیسے کم ہوتی چلی گئیں ، خاص طور پر تین بڑے یہودی قبائل کو نکالنے کے بعد جرائم میں بڑی نمایاں کمی آ گئی۔ جرائم اور اس طرح کے واقعات کی بیشتر مثالیں ہجرت کے ابتدائی سالوں کی ہیں ۔ بعد میں اس طرح کی مثالیں نسبتاً کم ہیں۔

مدینہ میں لکھنے پڑھنے کا رواج پہلے سے تھا۔ سوید بن صامت کا تذکرہ ہو چکا ہے جو حضرت لقمان حکیم کے حکمت نامہ سے واقف تھے اور اس کو پڑھتے بھی تھے۔ مدینہ منورہ میں بہت سے صحابہ جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ ان میں سے کئی حضرات ایسے تھے جو کامل کہلاتے تھے۔ لکھنے پڑھنے کا بندوبست اور تعلیم کی نشر و اشاعت ہجرت کے فوراً بعد ہی شروع ہوئی۔ کفار مکہ میں جو قیدی جنگ بدر میں ہاتھ آئے ان میں سے بہت سوں نے مدینہ منورہ کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔ یہ ان کا فدیہ تھا جس کے بدلے میں ان کو رہا کر دیا گیا۔

جو حضرات مدینہ منورہ میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے ان میں ایک نمایاں نام حضرت معاذ بن جبل کا بھی ہے۔ جیسے جیسے دوسرے علاقے بھی فتح ہوتے گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تعلیم کے لیے لوگوں کو بھیجتے رہے۔ عمرو بن حزم کو سترہ سال کی عمر میں یمن بھیجا تھا۔ ان کے بارے میں روایت ہے کہ ان کو دین کی سمجھ سکھائیں اور قرآن پاک کی تعلیم دیں ۔ حضرت معاذ بن جبل کو فتح مکہ کے بعد کچھ دن کے لیے مکہ میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ تاکہ وہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو ہجرت سے پہلے ہی مدینہ منورہ بھیج دیا تھا ۔ تعلیم قرآن کے گشت کرنے والے معلمین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں بھی مقرر فرمائے اور مدینہ میں بھی۔ مدینہ سے جن حضرت کو تعلیم قرآن کے لیے عرب کے مختلف قبائل اور علاقوں میں بھیجا گیا تھا ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ مدینہ منورہ کی مسجدوں اور تعلیمی مراکز میں جو صحابہ تعلیم دیا کرتے تھے ان میں زید بن ثابت، ابی بن کعب، حضرت ابو درداء ، اسید بن حضیر ، خالد بن سعید بن العاص، حضرت ابوعبیدہ ، عمرو بن حزم اور معاذ بن جبل (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کے نام بڑے نمایاں ہیں۔

حضرت عبداللہ بن سعید العاص جو ایک مہاجر صحابی تھے، کتابت سکھایا کرتے تھے۔ حافظ ابن عبدالبر نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ بہت اچھے کاتب تھے۔ وہ بچوں کو کتابت سکھایا کرتے تھے۔ حضرت عبادہ بن صامت بھی خوش نویسی کے استاد تھے اور خوش نویسی سکھایا کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں سے فنی اور تجربی علوم کی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھی ۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت کو یہودیوں کی زبان سیکھنے کے لیے یہودیوں کے مدارس میں بھیجا۔ منجنیق میں مہارت حاصل کرنے کے لیے صحابہ کرام کو یمن بھیجا۔ مدینہ منورہ میں دارالقراء کے نام سے ایک بڑا مکان تھا جہاں بڑی تعداد میں قرآن پاک کی تعلیم و تربیت ہوتی تھی۔ وہاں بڑی تعداد میں طلبہ اور اساتذہ کرام ٹھہرا کرتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے بارے میں ملتا ہے کہ جب مدینہ آئے تو اس مکان میں ٹھہرے جس کو بعد میں دارالقراء کہا گیا۔ حضرت عبداللہ بن ام مکتومؒ بھی اس مکان میں ٹھہرے۔

مدینہ منورہ اس اعتبار سے پورے جزیرہ عرب میں نمایاں تھا کہ وہاں تجارت اور زراعت دونوں کے مراکز تھے۔ طائف میں زیادہ تر زراعت ہوتی تھی تجارت کم تھی۔ مکہ مکرمہ میں صرف تجارت ہوتی تھی ، زراعت نہیں تھی۔ مدینہ منورہ میں تجارت اور زراعت دونوں ہوتی تھیں۔ مدینہ منورہ میں بہت سے باغات اور کھیت تھے۔ کھجور اور انگور کے علاوہ بھی بہت سی دوسری پیداوار ہوتی تھی۔ تجارت میں اگرچہ اب مسلمان بھی شریک تھے۔ لیکن زیادہ تر تجارت اب بھی یہودیوں کے ہاتھ میں تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے تو آپ نے ایک ایک کر کے ان میں سے ہر چیز کا جائزہ لیا ۔ جو چیز اسلام کے نقطۂ نظر سے قابل قبول تھی یا غلط نہیں تھی ، اس کو حضور ؐ نے جاری رہنے دیا اور اس کی ممانعت نہیں فرمائی۔ یہ اسلام کی حکمت تشریع کا ایک بنیادی اصول ہے کہ معاملات اور تجارت کے ابواب میں اصل چیز حلّت ہے ، حرمت نہیں۔ باالفاظ دیگر اصول یہ ہے کہ جو لوگ کاروبار کر رہے ہیں اگر وہ شریعت کے کسی حکم سے متعارض نہیں ہے تو وہ کاروبار جائز ہے ۔ کچھ منفی چیزوں کی صراحت کر دی گئی کہ یہ چیزیں ناجائز ہیں اور تجارت اور کاروبار سے ان کو ایک ایک کر کے ختم کیا جائے۔ اس لیے عرب میں تجارت کی جتنی شکلیں تھیں ان میں سے ایک ایک کر کے کچھ شکلیں جو خالص منفی اور غیر منصفانہ تھیں وہ ناجائز قرار پائیں اور بہت سی رائج الوقت شکلوں کو جزوی اصلاحت کے ساتھ جائز قرار دے دیا گیا۔ مدینہ منورہ کی مارکیٹ پر یہودیوں کی اجارہ داری کو کیسے ختم کیا گیا آئندہ جمعہ کے ایڈیشن میں بیان کیا جائے گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button