ذہنی طور پر بیمار لوگ

وہ تو بہت غریب ہے ، باپ بھی ریٹائرڈ ہے، بہن بھائی کافی ہیں اسی لیے چند روپوں کے لیے نوکری کر رہی ہے۔فلا ں کے میاں کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے اسی چکر میں یہ یہاں آ گئی ہے ۔ فلاں نے تو جان بوجھ کر شادی نہیں کروائی آج تک جتنا کمایا ہے اپنے اگلے پچھلوں کو ہی جائے گا۔ فلانی شادی کر لیتی تو دماغ درست رہتا اب توبالکل ہی نفسیاتی مریضہ بن گئی ہے۔ جی ہاں یہ گفتگو کوئی محلے کی دو چار خواتین کے درمیان نہیںہو رہی جو پورے اہل محلہ کی خبریں رکھتی ہیںبلکہ یہ ایک تعلیمی ادارے میں بیٹھے ہوئے ان پڑھے لکھے لوگوںکی غیر مہذب گفتگو ہے جو اس قوم کے معمار ہیں، طالبعلموں کی اچھی تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ مگر ان کی اس غیر اخلاقی گفتگو سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان ذہنی طور پر بیمار افراد کو سخت نفسیاتی علاج معالج کی ضرورت ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰــ ہے ــ ـ : اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیںعورتوں کامذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو ں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ، اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں (آیت ۱۱، سورۃ الجرات) جس فضول گفتگو کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے اگر اس آیت مبارکہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو کتنے صاف الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہ دی ہے کہ چاہے مرد ہو یا عورت ،نہ ہی کوئی کسی کا مذاق اڑائے اور نہ ہی کسی کا ذکر تمسخرا اڑانے کے لیے کیا جائے ، نہ ہی لوگوں کے عیب ٹٹولے جائیں اور نہ ہی ان کا ڈھنڈورا پیٹا جائے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دنیا میں کسی کا عیب چھپائے گا ، اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کے عیب چھپائے گا (مسلم شریف) لیکن افسوس لوگ دوسروں کے عیب ظاہر کر کے خود کو فرشتہ ثابت کرنا چاہتے ہیں یا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو مردوں کی نسبت یہ اخلاقی برائی عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا ہے اور کبر اللہ کو سخت نا پسند ہے۔
ہر آتے جاتے کو تنقید کا نشانہ بنانا، کسی کے جسمانی خدوخال اور رنگت کا مذاق بنانا، تو کبھی کسی کے گھریلو مسائل کو محض چسکے لینے کی خاطر ڈسکس کرنا، کبھی کسی کے میاں کی کمائی کے حلال یا حرام ہونے کے فتوے جاری کرنا۔کیا قوم کے معماروں کو اس طرح کی گفتگو زیب دیتی ہے؟
ہم سب تبدیلی کے لیے شور مچاتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ دوسرا ہماری مرضی کے عین مطابق ہو مگر خود اپنی ذات میں نہ تو کو ئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور نہ تنقید برداشت کرتے ہیں۔ہم نظام میں ایک سو دس غلطیاں نکالتے ہیں اور ہر وقت اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کوئی خامی بس ہاتھ لگ جائے( اور کچھ ہاتھ نہ آئے تو ذاتیات پر اتر آتے ہیں) ہمارا فوکس اس بات پر نہیں ہوتا کہ جو فرائض ہمارے ذمہ ہیں ہم ان کو امانتداری اور محنت سے سرانجام دیں بلکہ وہ تو ہم نے پلان کیا ہوتا ہے کہ اپنا کام کسی اور کو دے کر کروا لیں گے اور بعد میں اپنی ACR کو اپنے کارناموں سے بھر لیں گے۔ سورۃ الحجرا ت میں اللہ فرماتا ہےـ؛ بہت بدگمانیوں سے بچو ،یقین مانو بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی۔اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔(آیت:۱۲ )

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button