وقت پر اُجرت نہ دینے کا رجحان

جب تک سرمایہ کار دولت کو ضرورت مندوں اور ملازمین پر خرچ کرتا رہتا ہے اللہ کی طرف سے رحمت برستی رہتی ہے لیکن جب وہ سرمایہ کو اپنی ذات اور خاندان تک محدود کر لیتا ہے تو خداوند کی طرف سے رحمت کا چشمہ بھی بند ہو جاتا ہے

انسان سرمایہ اکھٹا کرنے کیلئے دن رات جستجو کرتا ہے، منصوبہ بندی اور کئی سالوں کی محنت کے بعد سرمایہ اکھٹا کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے، مگر جوں جوں سرمایہ بڑھتا ہے اس کی ہوس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی محنت کے بل پر سرمایہ جمع کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، اکثر سرمایہ کار استحصال اور ہیر پھیر کے بعد سرمایہ کار بننے میں کامیاب ہوتے ہیں، کئی لوگوں کا تو کہنا ہے کہ ہیر پھیر کے بغیر سرمایہ جمع کرنا بہت مشکل امر ہے۔
سرمایہ کاروں کی اکثریت عمر کے اس حصے میں سرمایہ جمع کرنے میں کامیاب ہوتی ہے جب وہ بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں یوں ان کی عمر بھر کی محنت سے جمع کیا گیا سرمایہ عمر کے آخری حصے میں اگلی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے، جس سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے ، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سرمایہ بیٹیوں کو منتقل ہوتا ہے، دامادوں کو چونکہ مفت میں اور بغیر کسی محنت کے سرمایہ مل جاتا ہے تو وہ بہت بے دردی سے سرمایہ اڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔
بہت کم سرمایہ کاروں کی اولاد اپنے باپ دادا کے بزنس کو سنبھالنے میں کامیاب ٹھہرتے ہیں، یوں سرمایہ ایک نسل کے بعد مختلف لوگوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو جاتا ہے، سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اولاد قابل ہو، بزنس کو سمجھتی ہو، اور کاروبار بھی ایمانداری سے کرے، انہیں بزرگوں کی دعائیں بھی ہوں تب بھی سرمایہ تیسری نسل کے بعد اپنا ٹھکانہ دوسری جگہ بنا لیتا ہے۔ قوموں کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ باپ دادا مالدار تھے لیکن اولاد بھیک مانگنے پر مجبور ہوئی اسی طرح باپ دادا غریب تھے مگر اولاد سرمایہ کار بن گئی۔
سرمایہ قائم رہنے کا ایک گُر اکثر بیان کیا جاتا ہے وہ یہ کہ جب سرمایہ کار یہ سمجھنے لگے کہ اللہ نے اسے سرمایہ دوسروں کو بانٹنے کیلئے دیا ہے، جب تک سرمایہ کار دولت کو ضرورت مندوں اور ملازمین پر خرچ کرتا رہتا ہے اللہ کی طرف سے رحمت برستی رہتی ہے لیکن جب وہ سرمایہ کو اپنی ذات اور خاندان تک محدود کر لیتا ہے تو خداوند کی طرف سے رحمت کا چشمہ بھی بند ہو جاتا ہے۔
ایک بوڑھا سرمایہ کار اپنے ملازمین پر بہت مہربان تھا اور ملازمین کو بروقت اجرت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ جب بھی کسی ملازم کے ہاں خوشی غمی کا موقع ہوتا تو وہ خاموشی سے تعاون کرتا، یہ سلسلہ کئی سال تک راز داری کے ساتھ چلتا رہا، اس کا بزنس بھی پھلتا پھولتا رہا، جب بوڑھے سرمایہ کار کا انتقال ہو گیا تو کاروبار بیٹوں کے ہاتھ میں آ گیا انہوں نے ملازمین کو وقت پر سیلری دینے کی بجائے یہ سوچ کر تاخیر کرنی شروع کر دی کہ کچھ دن بینک میں پیسہ رکھ کر اس سے سود کمایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ورکرز کی خوشی غمی پر تعاون کو والد کی بے وقوفی قرار دیا، ایک بیٹے نے کہا کہ ہمارے والد جتنی رقم ورکرز کو سالانہ دیتے تھے اس کی بچت کر کے نئے ماڈل کی گاڑی لی جا سکتی ہے، سو انہوں نے ورکرز کے ساتھ کیا جانے والا مالی تعاون روک لیا، اور اپنے تئیںسمجھنے لگے کہ انہوں نے بڑا کمال کیا ہے، تاہم کچھ ہی عرصہ بعد کاروبار زوال پذیر ہونا شروع ہو گیا۔ جو چشمہ خدا کی طرف سے جاری تھا وہ خشک ہو گیا ورکرز کی وجہ سے انہیں جو سرمایہ مل رہا تھا وہ بھی بند ہو گیا لیکن یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کیونکہ اکثر لوگ ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
سرمایہ کاروں کی طرف سے ملازمین کو وقت پر اجرت نہ دینے کا رجحان ہمارے سماج میں رواج پکڑ چکا ہے، حالانکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ مزدور کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔ مسلمانوں کا طرز عمل مایوس کن ہے اس کے برعکس غیر مسلموں کے ہاں وقت پر پوری اجرت دینے کا رجحان ہے۔
پاکستان جیسے سماج کی تنزلی ملاحظہ کیجئے کہ ارب، کھرب پتی شخص مزدور کی چند ہزار اجرت روک لیتا ہے، دانستہ طور پر مزدور کے کئی چکر لگواتا ہے، خدا کو یہ اکڑ پسند نہیں ہے، یہ سرمایہ تمہارا کمال نہیں بلکہ خدا کی عطا ہے، اس کا انجام زوال پذیری ہوتا ہے۔ اربوں روپے کا بینک بیلنس ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص مزدور کی اجرت وقت پر ادا نہیں کرتا ہے تو یاد رکھیں ایسا شخص مالدار ہونے کے باوجود غریب ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button