کیا نئے سیٹ اپ کی تیاری ہو رہی ہے؟

پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اندرون خانہ کچھ ایسا ہو رہا ہے جو مروجہ جمہوری سسٹم میں تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہا ہے، پی ڈی ایم کا متحرک ہونا، فوری استعفوں پر آمادگی اور لانگ مارچ کا عندیہ اس سوچ پر مہر ثبت کر رہا ہے، کیونکہ پی ڈی ایم اتحاد اس سے قبل یہ ذہن بنا چکا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا نہیں جائے گا، بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام کیا جائے گا تاکہ اپوزیشن جماعتیں آئندہ انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔ سیاسی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اندرون خانہ صدارتی نظام لانے کی تیاری ہو رہی ہے، موجودہ سیاسی ہل چل کے پس پردہ بھی یہی حقائق ہیں۔ عمران خان صدراتی نظام کے مبینہ حامی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ صدارتی نظام کے تحت انہیں ایسے اختیارات حاصل ہو جائیں کہ جس سے وہ اپنے ویژن کے مطابق منصوبوں کو تکمیل تک پہنچا سکیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ جمہوری نظام میں وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کر سکتے ہیں، اس لئے کہ موجودہ جمہوری سسٹم میں ہر کام کا ایک طریقہ کار اور پراسس ہے جو بسا اوقات اس قدر طویل ہوتا ہے کہ منصوبے کو عملی شکل دینا مشکل ہو جاتا ہے، اسی طرح موجودہ جمہوری نظام میں قانون سازی کے بغیر کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا سکتا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں شروع میں صدارتی نظام کی مخالفت کرتی رہی ہیں، تاہم اب معلوم ہوتا ہے کہ در پردہ کچھ ایسا چل رہا ہے جس کی پوری تصویر تو سامنے نہیں آ سکی ہے مگر اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ نئے سیٹ اپ کیلئے کہیں نہ کہیں کچھ ضرور ہو رہا ہے، ورنہ اپوزیشن جماعتیں جو خاموشی اختیار کر چکی تھیں اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب سیاسی جماعتوں کا اصل ہدف آئندہ انتخابات ہیں، وہ اچانک متحرک نہ ہوتیں۔اس حوالے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس بہت اہمیت کا حامل ہے جو تادم تحریر ہو رہا ہے، اگر اپوزیشن جماعتیں بھی صدارتی نظام کا ذہن بنا چکی ہیں تو پھر حکومت وقت سے پہلے گھر جائے گی، سخت سردی کے باوجود سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو باہر نکالیں گی، ممکن ہے کارکنوں کو سڑکوں پر لانے کی نوبت نہ آئے اور یہ کام ان ہاؤس تبدیلی سے ہی ہو جائے۔
گزشتہ روز مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم قیادت کے درمیان کراچی میں اہم ملاقات ہوئی ہے، جس میں ظاہر تو یہ کیا جا رہا ہے کہ دونوں جماعتیں نئے بلدیاتی نظام پر تحفظات رکھتی ہیں، اس حوالے سے ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے کہا ہے کہ سندھ کے نئے ترمیمی بلدیاتی نظام پر ہر سطح پر مظاہرے کریں گے، ضرورت پڑی تو اسمبلی میں بھی احتجاج کریں گے۔ ایم کیو ایم رہنما نے یہ بھی کہا کہ سندھ کے نئے ترمیمی بلدیاتی نظام کے حوالے تمام جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں، نئے بلدیاتی نظام میں مئیر کو اختیارات نہیں دیے گئے۔ مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کی قیادت نے مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ تاثر قائم کیا کہ سندھ کے فنڈز شفافیت کے ساتھ نہیں لگائے جا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان قربتیں بڑھیں گی، سیاسی اتحاد بھی ہو سکتا ہے جو ممکنہ طور پر نئے سیٹ اپ کا حصہ ہو گا۔
دریں حالات وفاقی حکومت نے نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کیلئے سمری ایوان صدر بھجوا دی ہے، سمری ملنے کے بعد صدر مملکت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کریں گے، کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوا تو تعیناتی کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو منتقل ہو جائے گا۔ سیاسی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ نئے چیئرمین نیب کے انتخاب میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی اس مرحلہ وار کارروائی میں مزید بے نقاب ہوں گے، کیونکہ موجودہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کو بھی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے باہمی مشاورت سے نامزد کیا تھا مگر جب دونوں جماعتوں کی قیادت کے خلاف نیب نے کارروائی شروع کی تو مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی نے چیئرمین نیب کے فیصلے کو درست فیصلہ قرار نہیں دیا تھا۔ سکرین سے ہٹ کر بیک وقت کئی کھیل کھیلے جا رہے ہیں، ایسے حالات میں بلدیاتی انتخابات بھی ہو رہے ہیں، تاہم اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں ہونے والے فیصلے آئندہ کا سیاسی نقشہ بیان کرے گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button