پانچ ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ
حکومت غیر یقینی کی فضا ختم کرنے میں ناکام،یہی صورتحال مزید چند ماہ تک جاری رہی تو تجارتی خسارہ 15رب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا
نومبر کے مہینہ میں تاریخ کی بلند ترین 8ارب ڈالرز کی درآمدات اور تاریخ کے بلند ترین 5 ارب ڈالرز سے زائد کے تجارتی خسارے نے سرمایہ کاروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، حکومت کی جانب سے اچانک اٹھائے جانے والے اقدام سے سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، حکومت نے سٹیٹ بینک سے پندرہ دن کے اندر دو فیصد شرح سود پر پیسہ اٹھایا، جبکہ چھ ماہ کیلئے ساڑھے گیارہ فیصد پر پیسے لئے تو شرح سود میں توقع سے زیادہ اضافے کے خطرات پیدا ہو گئے اور سٹاک مارکیٹ شدید مندی (بلڈ باتھ) دیکھا گیا، سٹاک مارکیٹ میں 2134 پوائنٹس کی مندی ریکارڈ کی گئی، جسے حکومتی تاریخ کی تیسری بڑی مندی قرار دیا جا رہا ہے، مارکیٹ کھلنے کے ایک گھنٹہ بعد ہی لوئر لاک لگنا شروع ہو گئے، یعنی مارکیٹ میں اس قدر گراوٹ تھی کہ بیجنے والے موجود تھے مگر کوئی خریدار موجود نہیں تھا۔
سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی جبکہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ محض ایک ماہ میں پانچ ارب ڈالر کے تجارتی خسارے نے کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں کہ اگر یہ صورتحال مزید چند ماہ تک جاری رہی تو تجارتی خسارہ پندرہ ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ خسارے سے مستقل بنیادوں پر نکلنے کیلئے کوشاں ہیں اور دوبارہ تجارتی خسارے کا بحران سر نہیں اٹھائے گا، مگر یہ دعویٰ حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔
مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت میں جی ڈی پی میں ترقی ساڑھے پانچ فیصد تھی، مہنگائی چار فیصد، مالیاتی خسارہ ساڑھے چھ فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ساڑھے انیس ارب ڈالرز تھا، اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت تین سال تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کا کریڈٹ لیتی رہی، تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال مالیاتی خسارہ 9 فیصد رہا، دوسرے سال مالیاتی خسارہ 8فیصد زیادہ رہا، جبکہ تیسرے سال مالیاتی خسارہ سات فیصد سے زیادہ رہا، تحریک انصاف کی حکومت کے گزشتہ تین سالوں کے دوران 10ہزار ارب روپے بجٹ کا خسارہ ہو گیا، جسے تاریخ کا بلند ترین خسارہ قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت مسلسل دعویٰ کرتی رہی کہ اس نے حکمت عملی کے تحت خسارہ کنٹرول کر لیا ہے جس کے اعداد و شمار بھی پیش کئے جاتے رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ چکا ہے، حتیٰ کہ 15 ارب ڈالرز کے خسارے کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں، کیونکہ محض گزشتہ ایک ماہ میں پانچ ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا ہے۔ حکومتی وزراء ہوں یا سٹیٹ بینک کے گورنر وہ جو کچھ کہتے رہے ہیں زمینی حقائق اس کے برعکس رہے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں دعویٰ کچھ کیا جاتا ہے مگر روپیہ مزید گر جاتا ہے، سٹیٹ بینک کی طرف سے غیر یقینی صورتحال کے خاتمے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر شرح سود بارہ فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔
حکومت نے گزشتہ دنوں کمرشل بینکوں سے گیارہ فیصد سے زیادہ پر قرضہ حاصل کیا، جس کا بوجھ ملکی معیشت پر پڑتا ہے جبکہ کمرشل بینکوں کو فائدہ ہوتا ہے، روپے کی قدر میں گراوٹ اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے قرضوں میں اربوں روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ مشیر خزانہ وزارت خزانہ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ان پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں مگر اب انہی پالیسیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت ان کی معاشی ٹیم عوام کو سمجھاتی رہی ہے کہ مشکل کے دن تھوڑے ہیں اور چند ماہ کے بعد معیشت سنبھل جائے گی، تاہم حقیقت میں ایسا نہیں ہوا ہے۔ سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جب کورونا عروج پر تھا تو اس وقت درآمدات ساڑھے تین ارب ڈالر رہ گئی تھیں، اسی کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سر پلس میں بھی گیا، مگر اب درآمدات کا آٹھ ارب ڈالر تک بڑھ جانا اور پانچ ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہونا یہ خطرے کی علامت ہے، اسے سنبھالنا آسان نہیں ہو گا، حکومت کو اس خسارے کی وجوہات کا معلوم کرنا ہوں گی۔
حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ بیرونی دنیا میں گزشتہ دو سالوں سے قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور اسی طرح روپے کی قدر میں گراوٹ دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں اس دوران حکومت کو چاہئے تھا کہ درآمدات کو کم کر دیتی اور برآمدات بڑھا دیتی مگر بدقسمتی سے درآمدات میں اضافہ ہوتا چلا گیا جس نے ہمارے لئے مسائل پیدا کئے، درآمدات سے منسلک بعض تاجروں کی ملی بھگت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ درآمدات بڑھنے سے انہیں اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے، حکومت کو فوری طور پر اس کا سدباب کرنا ہو گا کیونکہ اگر یہ صورتحال مزید دو تین ماہ تک جاری رہتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سولہ سترہ ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا جو وہی شرح ہو گی جو کورونا کے عروج کے دور میں تھی، ان سترہ ارب ڈالر میں اگر بیرونی قرضوں کی ادائیگی بھی شامل کریں تو مجموعی طور پر یہ رقم تیس ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی جو بہت پریشان کن امر ہے، کیونکہ پاکستان جیسے ملک کیلئے تیس ارب ڈالر کا بندوبست کرنا آسان نہیں ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے وقت وزارت خزانہ کے حکام کی طرف سے بعض ایسی باتیں کہی گئیں جو بداعتمادی کا سبب بنی ہیں، وزارت خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ایما پر بچلی، گیس پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا مگر کچھ ہی ماہ بعد انہیں گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے پڑے۔
حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے انوسٹرز نے ایک دن میں پانچ سو ارب روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھایا ہے، اس لئے حکومت کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہئے۔ حکومت کو اس لئے بھی ایکشن لینا چاہئے کیونکہ ہمارے ہاں عوام میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ معیشت سے متعلق فیصلے آئی ایم ایف کی ایما پر کئے جا رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت جب تحریک انصاف کی حکومت کو معاشی بحران کا سامنا ہے، تو اسے پارٹی کے اندر سے بھی مزاحمتی بیانئے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے قرض کے بدلے ہمارا سب کچھ لکھوا لیا ہے، آئی ایم ایف3سال میں6ارب ڈالر کے قرض کے بدلے ہم سے سب کچھ لے لے گا، وہ سالانہ 2 ارب ڈالر کا قرض دے گا، یہ کوئی امدادی رقم نہیں ہے۔
چوہدری محمد سرور کی جانب سے اپنی ہی پی ٹی آئی حکومت پر یہ تنقید ان کے دو روز قبل لندن میں اس گفتگو کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اختیارات کے بغیر گورنر بننا نہیں چاہتے تھے، تاہم پارٹی کے فیصلے کو قبول کیا، تاہم بعد میں اندازہ ہوا کہ انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ دریں اثناء برطانیہ میں مقیم پی ٹی آئی لیڈر انیل مسرت نے چوہدری محمد سرور کے پارٹی سے اختلافات کو مسترد کر دیا، اس سوال پر کہ گورنر پنجاب پی ٹی آئی سے ناخوش ہیں، ان کا کہنا تھا کہ چوہدری سرور پرانے ساتھی ہیں، یہ ناراض نہیں لگتے، بھائیوں میں بھی لڑائی ہو جاتی ہے، وہ آئندہ الیکشن میں بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔
واضح رہے کہ چوہدری محمد سرور نے قبل ازیں کہا تھا کہ میں گورنر کے عہدے کا خواہاں نہیں تھا، تاہم یہ پارٹی قیادت کا فیصلہ تھا، جو میں نے قبول کیا، جب آپ پارٹی سے منسلک ہوتے ہیں تو آپ کو پارٹی فیصلے قبول کرنا پڑتے ہیں نہ کہ فیصلوں کی مخالفت، یہ ہماری پارٹی کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ چوہدری محمد سرور نے کہا کہ اگر انہیں کوئی اور ذمہ داری دی گئی تو وہ اکثریت کی خدمت کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے، تاہم اپنے موجودہ اختیارات کے دائرے میں وہ اپنی ڈیوٹی مکمل ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ ہم اب تک عدالتی اور پولیس نظام میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے ہیں، یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے اداروں کو مضبوط نہ بنا سکے، سابقہ حکومتیں اس میں ناکام رہیں اور ہم شخصیات کے پیچھے بھاگتے رہے، اداروں کو مضبوط بنانے کا نہیں سوچا۔ گورنر پنجاب ان دنوں لندن کے دورے میں ہیں اور مختلف معاشرے کے مختلف طبقات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ یہ حقائق بتاتے ہیں کہ حکمران جماعت تحریک انصاف کی مشکلات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے ان مشکلات سے نمٹنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔