نااہلیت کرپشن سے بڑا ناسور

کرپشن ناسور ہے، تاہم نااہلیت کرپشن سے بھی بڑا ناسور ہے۔ کرپٹ شخص جو نقصان سالوں میں پہنچاتا ہے نااہل شخص اپنے ایک غلط فیصلے میں اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، اسے یوں سمجھیں کہ ایک شخص کو قومی یا نجی سطح پر کسی اہم معاہدے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، اس کے فرائض منصبی بھی تقاضا کرتے ہیں کہ متعلقہ ادارے کے مالی مفادات کا خیال رکھے، مگر وہ خفیہ طور پر ایسا معاہدہ کرتا ہے جس سے اس کی ذات کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ یہ معاہدہ ادارے کو مالی نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے، معاہدہ اس مہارت کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ متعلقہ ادارے کے ساتھ وابستگی بھی قائم رہتی ہے اور اندرون خانہ اضافی آمدن کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

دنیا بھر میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں کہیں کم تو کہیں زیادہ۔ اسے وائٹ کالر کرائم بھی کہا جاتا ہے جو بالعموم حکومتی اداروں میں کئے جاتے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری شخصیات اس مکروہ دھندے میں ملوث ہوتی ہیں، جو ریاست کے ملازم ہوتے ہیں، انہوں نے ریاست کے تحفظ اور مفاد کا حلف اٹھا رکھا ہوتا ہے مگر جب آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھ جاتی ہے تو ایسے معاہدے کر دیئے جاتے ہیں جو ملک و قوم پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

پاکستان جیسے معاشروں میں وائٹ کالر کرائم کے ذریعے ریاست مخالف معاہدوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ ہر معاشرے میں کرپشن کی مذمت اور اس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے، تاہم معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ کسی بھی معاشرے یا ملک کے بارے حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہاں پر کرپشن بالکل ختم ہو گئی ہے،کیونکہ سسٹم کو رواں رکھنے کیلئے بہت سے مواقع پر معمولی کرپشن کی گنجائش موجود رہتی ہے اگر زیرو کرپشن کی ٹھان لی جائے تو سسٹم کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔ بعض معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ کرپشن جس قدر بھی بڑھ جائے وہ ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی، دس سے پندرہ فیصد تک کرپشن ہر جگہ ہوتی ہے، اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات دس پندرہ فیصد کرپشن سے چشم پوشی بھی کرتے ہیں تاکہ سسٹم کی روانی میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔

چند سال پہلے ایک انگریری جریدے میں رپورٹ نظروں سے گزری تھی کہ عالمی سطح پر دس فیصد کرپشن کی گنجائش تسلیم کر لی گئی ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کرپشن سے لاکوں لوگوں کی کھانے کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، یہ بات بالکل ویسے ہی دکھائی دیتی ہے جیسے قحط کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ کاٹنے کی حد موقوف کر دی تھی جس کا بنیادی مقصد واضح تھا کہ بھوکے لوگوں کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ کئی ممالک کی عدلیہ میں اس طرح کے فیصلے موجود ہیں کہ جب چور نے ڈبل روٹی چوری کی تو عدالت نے اس کے خلاف اس لئے فیصلہ نہیں دیا کہ چور نے بھوک سے مجبور ہو کر یہ قدم اٹھایا ہے۔ سو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو کرپشن مذموم ہونے کے باوجود کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہے۔ اس کے برعکس نااہلیت ہے یعنی اعلیٰ عہدوں پر ایسے افراد کی رسائی کہ جو اس عہدے کے اہل نہیں تھے، جب نااہل شخص اعلیٰ عہدے پر براجمان ہوتا ہے تو وہ اپنے غلط اور بے وقت فیصلوں سے ملک و قوم کا ستیاناس کر دیتا ہے، اسی لئے نااہلیت کو کرپشن سے بڑا ناسور قرار دیا جاتا ہے۔

نااہلیت کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک بادشاہ کا حجام ، روزانہ بادشاہ کے پاس حاضر ہوتا اور دو تین گھنٹے اس کے ساتھ رہتا، بادشاہ اس سے حجامت اور شیو کرواتا۔
ایک دن نائی نے بادشاہ سے عرض کیا ،’’حضور میں وزیر کے مقابلے میں آپ سے زیادہ قریب اور وفادار بھی ہوں،آپ، اس کی جگہ مجھے وزیر کیوں نہیں بنا دیتے‘‘۔
بادشاہ مسکرایا اور اس سے کہا ،’’میں تمہیں وزیر بنانے کیلئے تیار ہوں لیکن تمہیں اس سے پہلے ٹیسٹ دینا ہوگا‘‘۔
نائی نے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا ،’’آپ حکم کیجئے‘‘۔
بادشاہ بولا،’’بندرگاہ پر ایک بحری جہاز آیا ہوا ہے ، مجھے اس کے بارے میں معلومات لا کر دو‘‘۔
نائی بھاگ کر بندرگاہ پر گیا اور واپس آ کر بولا، ’’جی جہاز وہاں کھڑا ہے‘‘۔
بادشاہ نے پوچھا، ’’یہ جہاز کب آیا۔‘‘ نائی دوبارہ سمندر کی طرف بھاگا،واپس آیا اور بتایا، ’’دو دن پہلے آیا‘‘ہے۔
بادشاہ نے کہا ،’’یہ بتاؤ یہ جہاز کہاں سے آیا‘‘۔ نائی تیسری بار سمندر کی طرف بھاگا، واپس آیا تو بادشاہ نے پوچھا ،’’جہاز پر کیا لدا ہے‘‘۔
نائی چوتھی بار سمندر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
الغرض نائی شام تک سمندر اور محل کے چکر لگا لگا کر تھک گیا۔
اس کے بعد بادشاہ نے وزیر کو بلوایا اور اس سے پوچھا ’’کیا سمندر پر کوئی جہاز کھڑا ہے‘‘۔
وزیر نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا ، جناب دو دن پہلے ایک تجارتی جہاز اٹلی سے ہماری بندرگارہ پر آیا تھا ،اس میں جانور‘ خوراک اور کپڑا لدا ہے‘ اس کے کپتان کا نام یہ ہے،یہ چھ ماہ میں یہاں پہنچا ہے، چار دن مزید یہاں ٹھہرے گا،یہاں سے ایران جائے گا اور وہاں ایک ماہ رکے گا اور اس میں دو سو نو لوگ سوار ہیں۔ میرا مشورہ ہے ہمیں بحری جہازوں پر ٹیکس بڑھا دینا چاہئے‘‘۔
یہ واقعہ متعدد بار بیان کیا جا چکا ہے، اور کسی کی نااہلی کو سمجھانے کیلئے اسے بیان کیا جاتا ہے۔ جبکہ قرآن میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے۔ ’’ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔‘‘

پاکستان کے معروضی حالات میں یا تو کرپشن ہوتی رہی ہے یا اعلیٰ عہدوں پر ایسے لوگ فائز رہے ہیں جو اس کے اہل نہیں تھے۔ ہماری رائے میں کرپشن سے ملک کو اتنا نقصان نہیں ہوا ہے جتنا نقصان نااہل قیادت نے ملک کو پہنچایا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button