عربوں نے جنسی تعلقات کو قانونی تحفظ دے دیا

عرب ممالک اہل مغرب کی نقالی میں تمام وہ کام کر رہے ہیں جو کسی وقت مغربی ممالک کا خاصا تصور کئے جاتے تھے، دبئی کے شیخ زید جدت کے نام پر فحاشی کے سرخیل ہیں، دبئی کی کامیابی کے پس پردہ حقائق بھی یہی ہیں کہ فحاشی کا اڈا ہونے کی وجہ سے دبئی کی راتیں رنگین ہوتی ہیں، دنیا بھر سے ہوس کے پجاری دبئی کا سفر کرتے ہیں، ہندؤوں کی اجارہ داری بھی اسی لئے ہیں کہ مسلمانوں کی نسبت وہ جنسی جرائم پر جلد آمادہ ہو جاتی ہیں، خوبصورت لڑکیوں کو ملازمت کے بہانے دبئی کے عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں ان کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں یا تو لڑکیاں جنسی جرائم کو بخوشی قبول کر کے یہ راستہ اپنا لیں، ورنہ انہیں مجبوراً یہی کام کرنا پڑے گا اور تشدد کیا جائے گا۔ دبئی پہنچتے ہی لڑکیوں کے پاسپورٹ لے لئے جاتے ہیں، لڑکیوں کے پاس چونکہ واپسی کا راستہ باقی نہیں رہتا اس لئے وہ جنسی جرائم کے راستے کو اختیار کر لیتی ہیں اور گھر والوں سے کہتی ہیں کہ وہ کسی سوفٹ ویئر کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ یہ ہیں دبئی کی کامیاب معیشت کے حقائق، جس کا کریڈٹ شیخ زید کو جاتا ہے۔دبئی نائٹ کلبوں کی داستان الگ ہے جسے کسی دوسری نشست میں بیان کریں گے۔
دبئی میں جنسی جرائم کا دھندہ پہلے خفیہ طور پر ہوتا تھا لیکن اب متحدہ عرب امارات نے اسے قانونی شکل دے دی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اصلاحات کے تحت تقریباً چالیس قوانین میں تبدیلیاں کرتے ہوئے شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنے کو جرائم کی فہرست سے نکال دیا ہے، اسی طرح شراب نوشی کے قوانین میں نرمی کی گئی ہے، متحدہ عرب امارات کے سرکاری میڈیا کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ جوڑے باقاعدہ شادی سے قبل پیدا ہونے والے بچوں کی قانونی حیثیت دینے کیلئے فوری طور پر شادی کر لیں، اگر والدین بچے کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کی دیکھ بھال نہیں کرتے تو ان پر فوجداری مقدمہ چلایا جائے گا۔ یاد رہے اس سے پہلے متحدہ عرب امارات میں شادی سے قبل جنسی تعلقات قائم رکھنے اور بچوں کی پیدائش قابل گرفت جرم تھا، اب اس ترمیم کی گئی ہے اور قرار دیا گیا ہے کہ شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کو نہ اپنانا جرم تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے قوانین میں اصلاحات سعودی عرب کے ساتھ علاقائی مسابقت برقرار رکھنے کیلئے کی گئی ہیں کیونکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی اصلاحات کے نام پر ارض مقدس میں ایسے ہی قوانین متعارف کرا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب عرب ممالک میں بدکاری کو بدکاری نہیں سمجھا جائے گا بالکل ویسے ہی جیسے مغربی ممالک میں اگر لڑکی اور لڑکا اپنی خوشی سے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں تو کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان سے پوچھ سکے۔ عرب ممالک کے شاہی گھرانوں میں ایک عرصہ سے مغربی ماحول پروان چڑھ رہا تھا، کیونکہ کئی شہزادوں نے اپنے عقد میں گوریاں لے رکھی ہیں جن میں اکثریت یہودی و نصرانی کی ہے، وہ گوریاں ایک عرصہ تک خواتین کو حقوق دینے کی بات کرتی رہی ہیں، جنسی آزادی کا مطالبہ بھی انہیں کی خواہش تھا جسے اب پورا کیا جا رہا ہے۔ عرب مماک اپنے ملک کے ماحول کو سامنے رکھ کر کس طرح کے قوانین بناتے ہیں اصولی طور پر ہمیں اس پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے مگر ہمارے ہاں اکثر مسلمان چونکہ عربوں کی اپنے لئے رول ماڈل تصور کرتے ہیں اس لئے انہیں عربوں کی طرف سے اس طرح کے فیصلوں پر دکھ ہوتا ہے لیکن مجھے ذرا بھی حیرانی نہیں ہوئی، کیونکہ اسلام پر عربوں کی کوئی اجارہ داری نہیں ہے، جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے، سو ہمیں رسول خدا کی تعلیمات پر عمل کیلئے کہا گیا ہے عربوں کی تعلیمات پر عمل کیلئے مسلمانوں سے کوئی تقاضا نہیں کیا گیا ہے۔ عرب ممالک میں پہلے بلند عمارتیں بنانے پر مقابلہ ہوا اور انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اب فحاشی میں عرب ممالک ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ اسلام نے نسب کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے اور زنا کی بنیادی وجہ بھی یہی قرار دی گئی ہے کہ اس سے نسب محفوظ نہیں رہتا، آج اسلام کو ماننے کے دعویدار نسب کو بگاڑنے کیلئے تمام تر حدود کو پامال کر رہے ہیں، اس میں عبرت ہے ان لوگوں کیلئے جو عرب مماک کو قابل تقلید سمجھتے تھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر یہ سمھتے تھے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں۔ عرب ممالک نے جدت کے نام پر جو راستہ اختیار کیا ہے یہ گہری کھائی کی طرف جاتا ہے جہاں ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے ہر روز غیرت کے جنازے اٹھتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button