ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے فراڈ سے کیسے بچیں؟
زندگی بھر کی جمع پونجی دو نمبر ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لگانے سے پہلے سوچیں، فراڈ سے بچنے کیلئے درج ذیل امور کا خیال رکھیں
ہاؤسنگ سوسائٹیاں لاکھوں افراد کو پلاٹ یا گھر فراہم کرنے کے نام پر لوٹ چکی ہیں، لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیانے بعد ڈھٹائی ساتھ ان کے سامنے گھوم پھر رہے ہیں مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، کئی متاثرین تو ایسے ہیں جنہوں نے 25-30 سال پہلے پلاٹ کیلئے پیسے جمع کرائے مگر طویل عرصہ گزرنے کے باوجود انہیں پلاٹ نہ مل سکا۔
متاثرین در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور جن اداروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ سوسائٹیوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھتے وہ چپ سادھے بیٹھے ہیں، اگر آپ سوسائٹیوں کیلئے وضع کئے گئے اصول و ضوابط اور قوانین کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ سرکار نے عوام کے مفاد میں ایسی شرائط رکھی ہیں کہ سوسائٹیاں چاہتے ہوئے بھی ہیرا پھیری نہیں کر سکتیں، کیونکہ کسی بھی جگہ پر سوسائٹی بنانے کیلئے لازمی ہے کہ وہ سرکار کی طرف سے طے کردہ اصولوں پر پورا اترتی ہو، جگہ کا محل وقوع اور سوسائٹی کیلئے درکار جگہ کا موقع پر موجود ہونا سب سے پہلی اور اہم شرط ہے اس کے بعد دیگر کڑی شرائط ہیں۔ مطلوبہ جگہ کی شرط اور محل وقوع کی شرط اس لئے عائد کی گئی ہے تاکہ جب سوساٹئی کو این او سی جاری کیا جائے تو وہ شرائط پر پورا اترتی ہو اور اصولی طور پر کسی بھی سوسائٹی کو ان ابتدائی شرائط پورا اترنے کے بعد ہی سوسائٹی کا نام استعمال کرنے اور تشہیری مہم کی اجازت ہوتی ہے مگر پاکستان میں قطعی طور پر ایسا نہیں ہوتا ہے، پاکستان میں سادہ لوح عوام کو ایک معمولی بروشر چھپوا کر آسانی سے لوٹ لیا جاتا ہے۔
بروشر کسی بھی پرنٹنگ پریس سے شائع کروا لیا جاتا ہے جس میں سوسائٹی کی فرضی تفصیلات ہوتی ہیں، جن کا حقیقت سے دور دور کوئی تعلق نہیں ہوتا، عوام کی اکثریت سوسائٹی کے خوبصورت بروشر کو دیکھ کر اسے اپنے خوابوں کا آشیانہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ بروشر چونکہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت گاہکوں کو پھانسنے کیلئے چھپوایا جاتا ہے اس لئے اس یورپی طرز کی ہاؤسنگ سوسائیوں کی تصاویر لگا کر اسے جاذب نظر بنایا جاتا ہے.
ایسی سہولیات درج کی جاتی ہیں جنہیں پورا کرنا کسی بھی سوسائٹی کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن پھر بھی لوگ اس پر اعتبار کرتے ہیں اور کام کی بات کرنے کی بجائے غیر ضروری باتوں میں الجھ جاتے ہیں مثال کے طور پر سوسائٹی کے نمائندے سے این او سی سے متعلق پوچھنے کی بجائے سوال کیا جاتا ہے کہ گلیوں کا سائز کیا ہو گا اگر وہ تیس فٹ کہیں تو لوگ ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ چالیس فٹ سے کم گلی نہیں ہونی چاہئے، سوسائٹی والے چونکہ بڑے کھلاڑی ہوتے ہیں اس لئے فوراً کہتے ہیں کہ دوسرے بلاک میں چالیس فٹ گلیاں ہیں لیکن اس کے پرائس تھوڑے زیادہ ہیں.
آپ جو سلیکٹ کریں گے اس حساب سے قیمت ہوگی۔ یوں لوگ ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور زیادہ سوالا نہیں کرتے۔ اگر کوئی سوال کرتا بھی ہے تو یہ کہ پارک،مسجد اور مارکیٹ کیلئے مختص جگہ بارے پوچھتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ این او سی کیلئے لازمی شرائط میں ضروریات زندگی کو مدنظر رکھ کر عوام کو سہولیات فراہم کرنے کا سوسائٹیوں کو پابند بنایا گیا ہے۔
ہر سوسائٹی نے بہت عمدہ پیپر پر نقشہ بنایا ہوتا ہے جسے لوگوں کو دکھا کر انہیں پلاٹ حاصل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یاد رکھیں این او سی سے پہلے کسی سوسائٹی کا نقشہ قابل اعتبار تصور نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح جب آپ سوسائٹی کے نمائندے سے این او سی بارے سوال کرتے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ این او سی آخری مراحل میں ہے بہت جلد این او سی حاصل ہو جائے گا ساتھ ہی وہ آپ سے کہیں گے کہ جب این او سی حاصل ہو جائے گا تو قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا، یوں آدمی لالچ میں آکر ان کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ اور ایک ایسے پلاٹ کیلئے پیسے جمع کرا دیتا ہے جو اسے ملنا ہی نہیں ہے۔ کسی سیانے کا قول ہے کہ انسان ہمیشہ لالچ میں آکر پھنستا ہے، زندگی بھر کی جمع پونجی اندھے کھوئیں میں پھینک کر دکھی ہونے کی بجائے ایسی جگہ لیں جو اگرچہ کم ہو لیکن معاملات صاف ہوں۔
ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نمائندوں کے لوٹنے کے طریقے مختلف ہیں ان میں سے ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گاہک کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ کسی سرکاری ادارے کے اعلیٰ عہدیدار ہیں، اور پارٹ ٹائم کے طور پر پراپرٹی کا کام کرتے ہیں ایسے لوگوں کی باتوں میں آ کر پلاٹ کا سودا کرنے کی بجائے ان سے نام اور ادارہ پوچھیں اور متعلقہ ادارے سے اس کی تصدیق کرائیں، یہ بہت آسان ہے اور معلومات تک رسائی شہریوں کا حق بھی ہے۔
اسی طرح پراپرٹی سے منسلک افراد نے لوگوں کو دکھانے کیلئے بہت مہنگی گاڑیاں رکھی ہوتی ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے اعتماد دلانا ہوتا ہے ان گاڑیوں کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ زیادہ تر یہ رینٹ پر حاصل کی جاتی ہیں۔ سو اس بات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں۔ ہر سوسائٹی کے آفس میں کمپنی کی رجسٹریشن اور ایف بی آر کے سرٹیکفیٹ آویزاں ہوتے ہیں اور نمائندے منہ کھول کر ان سرٹیفکیٹس کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ ہماری کمپنی باقاعدہ ٹیکس ادا کرتی ہے.
یاد رکھیں یہ سراسر دھوکہ دہی ہوتی ہے، ان سرٹیفکیٹس میں سے اکثر جعلی ہوتے ہیں اور کئی سال پرانے ہوتے ہیں، ایف بی آر میں معمولی ٹیکس ظاہر کر کے درپردہ اور خفیہ طور پر بڑے کاروبار کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح کمپنی رجسٹر کرانا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس پس منظر میں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مشکل وقت میں حکومت آپ کا ساتھ دے گی تو جان لیں کہ اگر حکومت نے چیک اینڈ بیلنس رکھا ہوتا ہے تو سوسائٹیوں کی جانب سے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے واقعات تواتر کے ساتھ سامنے نہ آ رہے ہوتے۔ حکومتی اداروں کی ملی بھگت کہیں یا اسے کوئی اور نام دیں آج تک ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا دھندہ جاری و ساری ہے۔ غلطی کہاں پر ہے اور ذمہ دار کون ہے؟ اسے اگلی نشست تک اٹھا رکھتے ہیں۔