مسلمانی ہی سب سے بڑا جرم ٹھہرا
یہود و نصاریٰ ازل سے مسلمانوں کو قبول کرنے سے انکاری ہیں، مختلف حیلے بہانوں سے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج سے صدیوں پہلے جس طرح اصحاب اخدود کا سب سے بڑا جرم اللہ پر ایمان لانا ٹھہرا تھا آج بھی یہود و نصاریٰ کو مسلمان کسی صورت قبول نہیں ہیں، بہت سے لوگ مغرب کی نقالی کر کے خوش ہوتے ہیں کہ اہل مغرب ان سے خوش ہو جائیں گے مگر یاد رکھیں یہود و نصاریٰ کبھی بھی مسلمانوں سے خوش نہیں ہوں گے۔ ذیل کی سطور میں نمونے کے لئے اصحاب اخدود کا مفصل واقعہ پیش کیا جا رہا ہے۔
حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’تم سے پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ گزرا ہے۔ اس کے پاس ایک ساحر تھا۔ جب وہ ساحر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ مجھے ایک ہوشیار لڑکا دیا جائے تاکہ اس کو سحر کا علم سکھا دوں۔ چنانچہ بادشاہ نے اس کو ایک لڑکا علم سحر سیکھنے کے لیے دے دیا۔ اس کے راستہ میں ایک راہب یعنی عیسائی پادری رہتا تھا، وہ لڑکا اس کے پاس آنے جانے لگا۔ اس کو راہب کی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ جب بھی ساحر کے پاس جانے کے لیے نکلتا تو اس راہب کے ہاں ضرور جاتا اور اس کی صحبت میں بیٹھتا اور جب ساحر کے پاس پہنچتا تو وہ اس کو (دیر سے آنے پر)مارتا۔ لڑکے نے راہب سے اس بات کی شکایت کی تو راہب نے کہا کہ جب تجھے ساحر سے کوئی خطرہ ہوتو کہہ دیا کرو کہ میرے گھروالوں نے مجھے روک لیا تھا اور جب گھر والوں سے ڈر ہو تو ان سے کہہ دیا کرو کہ ساحر نے مجھے روک لیا تھا۔ سلسلہ یوں چلتا رہا۔ ایک دن لڑکے نے دیکھا کہ کسی بڑے جانور نے لوگوں کا راستہ روک رکھا ہے۔ اس نے کہا کہ آج معلوم ہوگا کہ ساحر افضل ہے یا راہب؟ چنانچہ اس نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر دعا کی کہ اے اللہ! اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور میرے پتھر مارنے سے مارا جائے تاکہ لوگوں کو گزرنے کا راستہ مل سکے۔ یہ کہہ کر اس نے وہ پتھر مارا اور وہ جانور ہلاک ہو گیااور لوگوں کو گزرنے کا راستہ مل گیا۔ لڑکے نے آکر راہب کو سارا واقعہ بتایا تو راہب نے اس سے کہا کہ اے بیٹے! آج سے تو مجھ سے افضل ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تو اپنے کام میں انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ عنقریب تو ایک آزمائش سے دوچار ہوگا‘ اگر تو کسی آزمائش میں مبتلا ہوا تو کسی کو میرا نہ بتانا۔ وہ لڑکا پیدائشی اندھوں اور برص کے مریضوں کو ٹھیک کر دیا کرتا تھا اور لوگوں کا دیگر امراض کا علاج بھی کرتا تھا۔ بادشاہ کے ایک مصاحب نے اس کے متعلق سنا جو کہ نابینا تھا تو بہت سے ہدیے اور تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ اگر تو مجھے شفاء دیدے تو یہ سب کچھ تیرے لیے ہوگا۔ لڑکے نے کہا کہ میں کسی کو شفا نہیں دیتا۔ شفاء تو اللہ تعالیٰ ہی دیتے ہیں۔ اگر تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا وعدہ کرتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا وہ تجھے شفا دیدے گا۔ وہ آدمی ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو شفاء دیدی۔ پھر وہ اپنے بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس اس طرح بیٹھا جیسے پہلے بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ یہ تیری بینائی کس نے لوٹائی؟ اس نے کہا میرے رب نے میری بینائی لوٹا دی ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ کیا میرے سوا بھی تیرا کوئی رب ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! میرا اور تمہارا رب ‘ اللہ ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور اس کو برابر سزا دیتا رہا یہاں تک کہ اس نے بادشاہ کو لڑکے کا پتہ بتادیا۔ چنانچہ لڑکے کو لایا گیا ‘ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ اے بیٹے! تم اپنے سحر میں اس کمال کو پہنچ گئے ہو کہ پیدائشی اندھوں اور برص کے مریضوں کو اور دوسرے لاعلاج مریضوں کو ٹھیک کر دیتے ہو! لڑکے نے جواب دیا کہ میں کسی کو شفا نہیں دیتا ‘ شفاء تو اللہ تعالیٰ ہی دیتے ہیں۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور اس کو برابر سزا دیتا رہا حتیٰ کہ اس نے راہب کا پتہ بتا دیا۔ چنانچہ راہب کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ تو اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے انکار کیا‘ بادشاہ نے ایک آرا منگوایا اور اس کے سر کے بیچ میں رکھ کر اس کو چیر دیا اور اس کے دو ٹکڑے زمین پر گر پڑے۔ پھر بادشاہ کے اس مصاحب کو لایا گیا اور اس کو بھی اپنے دین سے پھر جانے کا حکم دیا گیا۔ اس نے بھی انکار کیا۔ چنانچہ اس کے سر کے بیج میں آرا رکھ کر اس کو بھی چیر دیا گیاجس سے اس کے دونوں حصے زمین پر گر پڑے۔ لڑے نے بھی انکار کیا تو بادشاہ نے اس کو اپنی ایک جماعت کے حوالے کرکے کہا کہ اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اس کو اوپر چڑھاؤ‘ جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جائے تو دیکھو کہ اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو چھوڑ دو ورنہ اس کو وہاں سے گرا دو۔ چنانچہ وہ لوگ اس لڑکے کو پہاڑ کے اوپر لے جا کر گرانے لگے تو اس لڑکے نے کہا اے اللہ! تو مجھے ان لوگوں سے بچا جیسے تو چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ پہاڑ ہلنے لگا اور وہ سارے اس سے گر کر ہلاک ہو گئے اور لڑکا صحیح سالم بادشاہ کے پاس چلا آیا۔ بادشاہ نے اس سے ان لوگوں کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں رہ گئے؟ لڑکے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ بادشاہ نے پھر اس کو اپنی ایک جماعت کے حوالہ کیا اور کہا کہ اس کو ساتھ لے جاؤ اور ایک کشتی میں سوار کرو پھر جب سمندر کے بیچ میں پہنچو تو دیکھو کہ اگر اپنے دین سے باز آ جاتا ہے تو چھوڑ دو ورنہ اس سمندر میں اس کو غرق کر دو۔ چنانچہ وہ لوگ اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ لڑکے نے پھر دعا کی کہ اے اللہ! آپ اپنی قدرت سے ان لوگوں کے شر سے میری حفاظت فرما‘‘۔ چنانچہ وہ کشتی ہی الٹ گئی‘ سب غرق ہو گئے اور لڑکا صحیح سالم واپس چلا آیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تیرے اصحاب کا کیا ہوا؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے محفوظ رکھا‘ پھر اس لڑکے نے خود ہی بادشاہ سے کہا تو مجھے قتل نہیں کروا سکتا جب تک تو میری بات پر عمل نہیں کرے گا۔ بادشاہ نے کہا وہ کیا بات ہے؟ لڑکے نے کہا کہ ایک کھلے میدان میں لوگوں کو جمع کرو اورمجھے کھجور کے ایک تنے پر لٹکاؤ‘ پھر میرے ترکش سے ایک تیر لو اور پھر اس تیر کو کمان کے بیچ میں رکھ بسم اللہ کہہ کر چلاؤ‘ اس طرح میں مر جاؤں گا۔ چنانچہ بادشاہ نے ایک وسیع میدان میں لوگوں کو جمع کیا اور اس کو کھجور کے تنے پر لٹکایا۔ پھر اس کے ترکش سے ایک تیر لے کر اس کی کمان کے بیچ میں رکھ کر کہا: ’’بسم اللہ رب الغلام‘‘ (اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے) پھر اس تیر کو چلایا تو وہ تیر سیدھا جا کر اس کی کنپٹی پر لگا ۔ اس نے اپنا ہاتھ کنپٹی پر رکھا جس جگہ پر تیر لگا تھا اور پھر وہ مر گیا۔ اس عجیب واقعہ کو دیکھ کر یک لخت لوگوں کی زبان سے نعرہ بلند ہواکہ ہم سب اس غلام کے رب پر ایمان لاتے ہیں‘ ہم سب اس غلام کے رب پر ایمان لاتے ہیں‘ ہم سب اس غلام کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ کسی نے جا کر بادشاہ کو بتا دیا کہ آپ کو جس چیز کا خطرہ تھا وہ واقع ہو گیا‘ لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ بڑا پریشان ہوا اور ارکان سلطنت کے مشورے سے بڑی بڑی خندقیں آگ سے بھروانے کا حکم دیا کہ جو شخص اپنے دین سے نہیں پھرے گا ‘ اس کو آگ میں جلا دیں گے۔ چنانچہ بہت سے آدمی جلائے گئے‘ اس دوران ایک عورت جس کی گود میں ایک بچہ تھا ‘ اس کو آگ میں گرنے سے ذرا ہچکچاہٹ ہوئی تو چھوٹا سا بچہ بولا کہ اماں جان! صبر کرو کیونکہ آپ حق پر ہیں۔ سو آج بھی مسلمانوں کو یہود ونصاریٰ کی پابندیوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ تو وہ گلزار ہے جس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے۔