غیر اختیاری کمالات کا ادب

اسلام میں ادب اور توقیر و تعظیم لازمی قرار دی گئی ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا:
’’جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی توقیر نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ‘‘
اکابر کی تعظیم و توقیر واجب قرار دی گئی ہے اور دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اسے انجام نہ دو گے تو ہماری جماعت میں شمار نہیں ہوگا اور یہ توقیر و ادب عمر کی بڑائی کی وجہ سے ہے‘ اگر کوئی علم رکھتا ہے تو علم کی وجہ سے ادب ہوگا۔
علم کے ساتھ زہدوقناعت کے جذبات اور اخلاق رکھتا ہے تو ان کا ادب واجب ہوگا ۔ لیکن اگر کوئی بھی کمال نہ ہو، صرف عمر کی بڑائی ہو ‘ اس وجہ سے بھی اس کا ادب ضروری ہوگا۔
حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی بوڑھے کی تعظیم اس کے بوڑھا ہونے کی وجہ سے کرے تو وہ اس سے پہلے نہیں مرے گا کہ اللہ اس کے لیے چھوٹے پیدا کر دیں جو اس کی تعظیم کریں گے۔
حدیث میں فرمایا کہ جو شخص سفید داڑھی والا ہاتھ پھیلا کر دعا مانگتا ہے… حق تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے حیا آتی ہے کہ اسے خالی واپس کر دوںتو یہ اس کی داڑھی کا عند اللہ وقار ہے جو محض عمر کی بڑائی کی وجہ سے اسے حاصل ہوگیا ہے۔ اگر اس بڑائی کے تحت اور بڑائی بھی جمع ہو جائیں … علم ‘ اخلاق بھی بڑھتا جائے لیکن کوئی ہنر نہ ہو تو خلقی کمال پر بھی ادب کی تلقین کی گئی ہے۔ مثلاً حدیث میں ارشاد ہے: امامت کرنے کا حق اُس کا ہے جو سب سے صحیح قرآن پڑھے… سب سے زیادہ قرآن کا عالم ہو۔ پھر جو سنت کا علم زیادہ رکھتا ہو اسے بڑھایا جائے… اگر سنت کے علم میں بھی سب برابر ہوں تو مسائل صلوٰۃ سے جو زیادہ واقف ہو اسے آگے بڑھاؤ… اگر اس میں سب برابر ہیں …
فرمایا کہ جو خوبصورت ہو اسے آگے بڑھاؤ… اگر سارے کے سارے حسین و جمیل ہوں… فرمایا جس کا نسب اونچا ہو اسے آگے کرو‘ تو کوئی خصوصیت مقدم کرنی چاہیے کہ مقتدیوں کو عار لاحق نہ ہو… اگر بڑے بڑے اہل کمال جمع ہیں اور کسی جاہل کو امامت کے لیے آگے بڑھایا تو انہیں عار لاحق ہو گا کہ کیسے بڑھا دیا؟ اگر سب حسین و جمیل ہوں اور کسی اندھے بہرے کو بڑھا دیا انہیں حقارت پیدا ہو گی کہ یہ کہاں سے آگے بڑھ گیا؟
جب اور کمالات میں سب برابر ہوں پھر خوبصورتی کو آگے رکھا گیا حالانکہ یہ کوئی اختیاری کمال نہیں … خدا کی بنائی ہوئی چیز ہے لیکن غیر اختیاری چیز بھی بعض اوقات خصوصیت کا سبب بن جاتی ہے۔ تقدم و تقدیم کی ضرورت ہے اور ان آداب میں بعض دفعہ تکوینی چیزیں بھی داخل ہو جاتی ہیں۔ باوجود یہ کہ عمر یا حسن اللہ کی دی ہوئی چیزہے مگر اس کے باوجود فرمایا اس کا ادب کرو… حاصل یہ نکلا ہر بڑھائی تعظیم کی مستحق ہے خواہ وہ تکوینی ہو یا تشریعی ‘ اختیاری ہو یا غیر اختیاری۔ اگر توقیر نہ کی گئی تو فرمایا ممکن ہے کہ تمہارے اعمال اور دین پر اثر پڑ جائے۔
نسبتوں کا ا دب بھی سکھلایا گیا ہے۔ یہ جو اللہ والوں کے ہاں نسبتوں کی توقیر کی جاتی ہے کہ شیخ کی عظمت کرتے ہیں… شیخ کی اولاد اور وطن کا بھی نسبت کی وجہ سے ادب کرتے ہیں۔ حدیث میں فرمایا:
’’فاطمہؓ میرا جگر گوشہ ہے‘ جس نے اسے ستایا ‘ اس نے مجھے ستایا‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی توقیر کی اس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی توقیر کی… یہ توقیر شرف صحابیت کی وجہ سے نہیں سکھلائی گئی اس میںتو اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی ہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہونے کی جو نسبت ہے اسی کا ادب سکھلایا گیا۔
اس لیے فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا میرا جگر گوشہ ہے… یہ نہیں فرمایا کہ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میں داخل ہے… صحابیت کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی جمع ہو گئیں جو اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونا ہے کہ یہ جز ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔ تو جب قلب میں رسولؐ کا ادب ہوگا تو اولادِ رسولؐ کا بھی ہوگا۔
اپنے بزرگوں سے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کے متعلق سنا کہ ان کی عادات میں ادب کا لحاظ بے حد ہوتا۔ سادات کا کوئی نابالغ بچہ بھی آ جاتا تو سرہانہ چھوڑ کر پائنتی کی طرف بیٹھ جاتے اور فرماتے کہ دنیا مخدوم زادوں کی عزت کرتی ہے… یہ عالم کے مخدوم زادے ہیں… سارے عالم پر ان کی تعظیم واجب ہے۔ حالانکہ بچہ نابالغ ہے مگر فرماتے ہیں یہ مخدوم زادہ ہے‘ یہ اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button