حکومت کی کشتی بھنور میں!
پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایسی ہلچل پیدا ہو گئی ہے جو بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم اور لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے اس کی تفصیلات میڈیا میں آ چکی ہیں، غور طلب امر یہ ہے کہ سیاست میں پیدا ہونے والی ہلچل سے کس کو فائدہ ہو گا اور کس کو نقصان ہوگا، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرگرمیاں حکمران جماعت کے خلاف ہیں، کیونکہ اپوزیشن کی جانب سے بالکل ویسا ہی الزام عائد کیا جا رہا ہے جو الزام تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2013ء کے انتخابات کے بعد سے لگانا شروع کیا تھا، عمران خان کا مؤقف تھا کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اداروں کو اپنے مفاد میں استعمال کیا ہے اس دوران وہ کھل کر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر اداروں کا نام بھی لیتے رہے، حالات نے پلٹا کھایا ہے تو آج انہیں ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، بقول شخصے ان کی حکومت بھنور میں پھنس چکی ہے، کیونکہ اپوزیشن جماعتیں کھل کر ایک کے بعد ایک ثبوت سامنے لا رہی ہیں جس میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف نے اقتدار کے حصول کیلئے اداروں کو استعمال کیا ہے۔ تحریک انصاف نے اگرچہ ان الزامات کو یکسر مسترد کر دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب تک ان الزامات کی تحقیقات ہوں گی تب تحریک انصاف کا دور حکومت ختم ہو چکا ہو گا، یوں کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آئندہ انتخابات کی تیاری میں مصروف ہیں، انہوں نے اپنی حکمت عملی کے تحت تحریک انصاف کی حکومت کو نان ایشوز میں مصروف رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تین سال گزارنے کے باوجود بھی تحریک انصاف عوامی مسائل کو حل کر سکی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا منصوبہ ہے جسے پیش کر کے کریڈیٹ حاصل کیا جا سکے۔ سیاسی امور کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کی پٹاری میں ابھی بہت کچھ باقی ہے جو دھیرے دھیرے باہر آتا رہے گا، تحریک انصاف جب تک ایک بات کا جواب دے گی تب تک اسے دوسرے مسئلے کا سامنا ہو گا۔ اپوزیشن اپنی خوبیوں کی بنا پر سٹریٹجی بنانے کی بجائے حکومت کی بیڈ گورننس کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی طے کر رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے حالیہ مذاکرات میں نئی شرائط لگائی گئی ہے جسے پورا کرنا حکومت کی مجبوری ہے مگر ان شرائط سے مہنگائی کی جو لہر آئے گی عوام اسے برداشت نہیں کر سکیں گے، یہ لہر عوام کو حکومت کے خلاف باہر نکلنے پر مجبور کر دے گی جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتیں اٹھائیں گی۔اطلاعات ہیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے چھٹے جائزے کے لیے درکار پالیسیوں اور اصلاحات پر عملے کی سطح کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان کو ایک ارب 5 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام اپریل سے ’’’موقوف‘‘ تھا۔آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پیشگی اقدامات کی تکمیل بالخصوص مالی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے بعد مذکورہ معاہدے کی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ دے گا۔ معاہدے کی منظوری سے اسپیشل ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آر) کی مد میں 75 کروڑ دستیاب ہوں گے، جو ایک ارب 5 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے مساوی ہیں۔آئی ایم ایف کے بیان کے مطابق اس سے پروگرام کی اب تک دی گئی رقم 3 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک پہنچ جائے گی اور باہمی اور کثیرالجہتی شراکت داروں سے فنڈنگ کھلنے میں مدد ملے گی۔ اس موقع پر آئی ایم ایف حکام کا کہنا تھا کہ دستیاب اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کووڈ 19 عالمی وبائی مرض کے سلسلے میں حکام کے کثیر الجہتی پالیسی ردعمل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مضبوط معاشی بحالی نے زور پکڑا جس نے اس کے انسانی اور میکرو اکنامک اثرات پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔آئی ایم ایف نے ذکر کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس ریونیو کی وصولی بھی خاصی مضبوط رہی ہے، اسی وقت بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور زرمبادلہ کی شرح پر گراوٹ کے دباؤ کی صورت میں بیرونی دباؤ پڑنا شروع ہوگیا تھا جو بنیادی طور پر مضبوط اقتصادی سرگرمی، ایک توسیعی میکرو اکنامک پالیسی مکس اور اعلیٰ بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔آئی ایم ایف نے کہا کہ حکومت نے ردعمل میں کورونا وائرس سے متعلق محرک اقدامات کو بتدریج ختم کرنا شروع کر دیا ہے۔آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح بلند رہے گی، البتہ روپے کی قدر میں کمی ختم ہونے کے بعد اس میں کمی کا رجحان نظر آنا شروع ہو جائے گا اور سپلائی میں عارضی رکاوٹیں اور طلب کے دباؤ ختم ہو جائیں گے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بارے میں آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے دوران اس کے مزید بڑھنے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف نے اس بات پر زور دیا کہ مانیٹری پالیسی کو افراط زر کو روکنے، شرح مبادلہ میں لچک کو برقرار رکھنے اور بین الاقوامی ذخائر کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف حکام کی گفتگو کا سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ معیشت کی بحالی کو کارکردگی سے مشروط کیا گیا ہے، اگر حکومت نے اہداف کو پورا نہ کیا تو شرائط سخت ہو جائیں گی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنے والے دنوں میں حکومت کو یکسوئی کے ساتھ کام کرنا ہو گا لیکن یہ بہت اہم ہے کہ کیا اپوزیشن حکومت کو ایسا ماحول فراہم کرے گی جس میں وہ کارکردگی میں بہتری لا کر مہنگائی سمیت دیگر مسائل پر قابو پا سکے؟