حرم کے دروازے اہل پاکستان کیلئے بند کیوں؟

سعودی حکومت کی پابندیوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اغیار کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور آنے والے سالوں میں صرف خوش نصیب لوگ ہی عمرہ کی سعادت حاصل کر سکیں گے

اہل پاکستان کیلئے حرمین شریفین کے دروازے بند ہیِں، کیونکہ سعودی حکومت نے پاکستان کو ان ممالک میں شامل کیا ہے جن ممالک سے کورونا پھیلنے کے خدشات زیادہ ہیں، اس فہرست میں اگرچہ پاکستان اکیلا نہیں ہے تاہم چونکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ پاکستانی عمرہ کیلئے حرمین شریفین کا سفر کرتے ہیں تو پاکستان پر اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوں گے، دو سال پہلے کوورنا کو جواز بنا کر جب سعودی حکومت نے پابندیاں عائد کیں تو اس میں سبھی ممالک شامل تھے اس لئے پاکستان کو کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں تھا، مگر گزشتہ سال کچھ ممالک کو محدود عمرہ کی اجازت تو دے دی گی لیکن پاکستانیوں کیلئے ابھی بھی حرم کے دروازے بند ہیں، جس پر اہل پاکستان کے دل گرفتہ ہیں، پاکستان کی حکومت نے سعودی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اپنے تئیں عمرہ کی اجازت کیلئے بسیار کوشش کی ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ جس طرح محنت کشوں کیلئے ویکسی نیشن کی شرط عائد کر کے انہیں سعودی عرب کے سفر اور وہاں پر قیام کی اجازت دی گئی ہے اسی طرح عمرہ زائرین کو بھی ویکسی نیشن کی شرط عائد کر کے عمرہ کی اجازت دے دی جائے، سعودی حکومت نے متعدد بار وعدہ کیا مگر عمرہ کی اجازت نہیں دی بلکہ مزید ایسی شرائط عائد کر دی ہیں جسے پورا کرنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ سعودی وزارت حج و عمرہ نے غیر ملکی عمرہ زائرین کی عمر کی حد کا تعین کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک سے صرف 18 سال سے 50 سال تک کی عمر کے افراد کو عمرہ کے پرمٹ جاری کئے جائیں گے، اسی عمر کے زائرین کو مسجد الحرام میں نماز کی اجازت کے پرمٹ جاری ہوں گے۔ ویزہ کے حصول کیلئے صرف لائسنس یافتہ ٹریولنگ ایجنسی سے رابطہ کیا جا سکے گا جس کا سعودی عمرہ کمپنی کے ساتھ منسلک ہونا بھی ضروری ہو گا۔ اسی طرح عمرہ زائرین کیلئے سفر سے پہلے سعودی عرب میں منظور شدہ کورونا ویکسین کی مطلوبہ خوراکیں حاصل کرنی ضروری ہو گا،کیونکہ ویکسین کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہو گا۔ ان شرائط کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کیلئے عمرہ کی سعادت نہایت مشکل ہو جائے گی خوش نصیب انسان ہی عمرہ کر سکیں گے کیونکہ پاکستان میں بالعموم بڑھاپے میں لوگ عمرہ کیلئے جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عمر بھر وہ پیسے جمع کرتے رہتے ہیں اور جب پیسے جمع ہوتے ہیں تو بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں، پچاس سال عمر کی شرط سے ایسے لوگ عمرہ کی سعادت سے محروم ہو جائیں گے، اسی طرح بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ پر جاتے ہیں تو ان میں اٹھارہ سال سے کم عمر بھی ہوتے ہیں اس شرط کے بعد فیملی کے ساتھ جانے والے اٹھارہ سال سے کم عمر افراد بھی عمرہ کی سعادت حاصل نہیں کر سکیں گے۔
سعودی حکومت کی طرف سے عمرہ کی ادائیگی کیلئے سخت ترین شرائط ایک وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب پوری دنیا میں کورونا کی شرح میں واضح کمی آ چکی ہے ایسے حالات میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سعودی حکومت کی طرف سے عمرہ شرائط میں نرمی کی جاتی تاکہ مسلمان عمرہ کی سعادت حاصل کر لیتے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکومت اغیار کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ پوری دنیا میں نطام زندگی بحال ہو رہا ہے یورپی ممالک سفر کیلئے صرف ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ کافی سمجھ رہے ہیں، المیہ تو یہ ہے کہ سعودی عرب میں وزٹ ویزہ حاصل کر کے آپ پورے سعودی عرب میں کہیں بھی آ جا سکتے ہیں مگر عمرہ کی اجازت نہیں ہے، سعودی حکومت کو اپنے اس طرز عمل بارے سوچنا چاہئے، اللہ تعالیٰ نے حرمین شریفین کی خدمت کا موقع فراہم کیا ہے تو اسے اپنے لئے شرف سمجھیں، کیونکہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی و روضہ رسول کسی کی میراث نہیں ہے، بلکہ یہ مقدس مقامات امت مسلمہ کا مشترکہ ورثہ ہیں، انتظامی امور کو جواز بنا کر حرم کے دروازے مسلمانوں پر بند کرنے کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔ دریں حالات ضروری ہو گیا ہے کہ جس طرح عثمانی دور میں حرم کے دروازے امت مسلمہ کیلئے ہر وقت کھلے رہتے تھے اب بھی تمام مسلمان ممالک کے اشتراک سے ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جس سے کسی مسلمان کو اعتراض نہ ہو۔ تمام مسلمان ممالک پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو مسلمانوں کیلئے سہولیات فراہم کرنے سمیت اہم فیصلے کرنے میں شامل ہوں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button