ہوشیار بنیں دھوکہ نہ کھائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پر حملہ آور ہوئے۔ وہاں اسلامی لشکر اور یہود کے درمیان جھڑپیں ہوئیں‘ پھر آپ نے ان سے مصالحت کی اور شہر میں داخل ہوئے۔ معاہدے کی شرائط میں یہ امر بھی شامل تھا کہ یہود اپنے مال و متاع اور سونے چاندی میں سے کوئی چیز نہیں چھپائیں گے۔ اگر انہوں نے کوئی چیز چھپانے کی کوشش کی تو معاہدہ منسوخ سمجھا جائے گا اور اس کی کسی شق پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔
حُیی بن اخطب جس کا شمار یہودیوں کے سرداروں میں ہوتا تھا‘ مدینہ کی جلاوطنی پر سانڈ کی ایک چمڑی اپنے ساتھ لیتا آیا تھا جس میں بہت سا سونا اور زیور سِلا ہوا تھا۔ حُیی یہ سونا ترکے میں چھوڑ کر مرا تھا۔ یہود نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا لیا۔ آپ نے حُیی بن اخطب کے چچا سے دریافت کیا:
حُیی کی وہ چمڑی کیا ہوئی جو وہ نضیر سے لایا تھا؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’وہ سونا تو جنگوں اور دیگر مدوں میں خرچ ہو گیا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے اس کا جواب سنا تو سوچ میں پڑ گئے کہ حُیی کو مرے زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ مال بھی بڑی مقدار میں تھا اور ماضی قریب میں ان لوگوں کو جنگ سے واسطہ بھی نہیں پڑا کہ اتنا مال خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی۔
آپ نے اعتراض کیا:
’’اتنا زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور مال بھی خاصی مقدار میں تھا۔‘‘
یہودی نے پھر وہی ٹکا سا جواب دیا:
’’مال اور زیور سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔
آپ نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈالی جو خاصی تعداد میں تھے۔ وہ سب آپ کے اشارے کے منتظر تھے۔
آپ ﷺ نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور کہا:
’’زبیرؓ! اس آدمی کی کچھ تواضع کی جائے۔‘‘
زبیرؓ شعلہ بار ہو کر یہودی کی جانب بڑھے۔ یہودی انہیں دیکھ کر کانپ اٹھا‘ اس نے سمجھ لیا کہ صورتِ حال پیچیدہ ہے۔ وہ جھٹ سے بولا: ’’میں نے حُیی کو دیکھا تھا وہ وہاں کھنڈر میں گھومتا پھر رہا تھا۔‘‘ اس نے ایک پرانے گھر کے کھنڈر کی طرف اشارہ کیا۔ صحابۂ کرامؓ وہاں پہنچے۔ اِدھر اُدھر تلاش کیا تو انہیں کھنڈر میں چھپایا ہوا مال مل گیا۔ (ابن حبان)
دیکھیں! زبیرؓ بن عوام جو کام کر سکتے تھے‘ دوسرے نہیں کر سکتے تھے۔ آپ بھی لوگوں کی صلاحیتوں اور مزاجوں کے مطابق ہی اُن سے امیدیں وابستہ کریں ورنہ بہت جلد ناکامی اور مایوسی کا شکار ہو جائیں گے۔