نکاح اور ولیمہ میں کی جانے والی غلطیاں

لوگ شادی بیاہ میں ہونے والی فضول رسموں سے انتہائی پریشان ہیں اور اس کا حل چاہتے ہیں۔ شادی بیاہ کے بارے میں دینی معلومات عام ہیں اور وہ معمولی باتیں جو مسلمان گھرانے کے ہر فرد کو معلوم ہوا کرتی تھیں اب اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو نہیں پتا۔ ان کی جگہ بہت سے بے بنیاد اور غلط مفروضوں نے لے لی ہے۔ دینی علم سے نابلد لوگ ان مسائل کی صحیح شرعی حیثیت جاننا چاہتے ہیں۔
شادی کی تقریبات میں ’’ولیمہ‘‘ ایک ایسی تقریب ہے جو باقاعدہ سنت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صراحتہً ترغیب دی ہے۔ لیکن اول تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دعوت کوئی فرض یا واجب نہیں جسے چھوڑنے سے نکاح پر کوئی اثر پڑتا ہو۔ ہاں یہ سنت ہے اور حتی الامکان اس پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس سنت کی ادائیگی کے لیے شرعاً نہ مہمانوں کی کوئی تعداد مقرر ہے ‘ نہ کھانے کا معیار بلکہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق جس پیمانے پر چاہے ولیمہ کر سکتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ولیمہ کیا جس میں صرف دو سیر جو خرچ ہوئے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر ولیمہ سفر میں ہوا، اور اس طرح ہوا کہ دسترخوان بچھا دیا گیا اوران پر کچھ کھجوریں‘ کچھ پینیر اور کچھ گھی رکھ دیا گیا۔ بس ولیمہ ہو گیا البتہ زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر روٹی اور بکری کے گوشت سے دعوت کی گئی۔ لہٰذا ولیمہ کے بارے میں یہ سمجھنا درست نہیں کہ اس میں مہمانوں کی کوئی بڑی تعداد ضروری ہے، یا کوئی اعلیٰ درجے کا کھانا ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس خود گنجائش نہ ہو تو وہ قرض اور ادھار لے کر ان چیزوںکا اہتمام کرے بلکہ شرعی اعتبار سے مطلوب یہی ہے کہ جس شخص کے پاس خود وسائل کم ہوں وہ اپنی استطاعت کے مطابق اختصار سے کام لے۔ ہاں اگر استطاعت ہو تو زیادہ مدعو کرنے اور اچھے کھانے کا اہتمام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ مقصد نام و نمود اور دکھاوا نہ ہو۔
ان حدود میں رہتے ہوئے ولیمہ بے شک مسنون ہے اور اس لحاظ سے کارِ ثواب بھی۔ لہٰذا اس کے تقدس کو طرح طرح کے گناہوں سے مجروح کرنا اس کی ناقدری‘ بلکہ توہین کے مترادف ہے۔ محض شان و شوکت کے اظہار اور نام و نمود کے اقدامات‘ تقریبات کی مصروفیات میں نمازوں کا ضیاع‘ سجے بنے مردوں کا عورتوں سے بے حجاب میل جول اور ان کی فلم بندی۔ اس قسم کے دوسرے منکرات اس تقریب کی برکتوں پر پانی پھیر دیتے ہیں جن سے اس بابرکت تقریب کو بچانا چاہیے۔
ولیمہ کے بارے میں ایک اور غلط فہمی خاصی پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ پریشان رہتے ہیں۔ وہ غلط فہمی یہ ہے کہ اگر دلہا دلہن کے درمیان تعلقات زن و شو قائم نہ ہو پائے ہوں تو ولیمہ صحیح نہیں ہوتا۔
واقعہ یہ ہے کہ ولیمہ نکاح کے وقت سے لے کر رخصتی کے بعد تک کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ البتہ مستحب یہ ہے کہ رخصتی کے بعد ہو۔ اور رخصتی کا مطلب رخصتی ہی ہے، اس سے کچھ زیادہ نہیں۔ یعنی یہ کہ دلہن دلہا کے گھر آ جائے اور دونوں کی تنہائی میں ملاقات ہو جائے۔ اگر کسی وجہ سے دونوں کے درمیان تعلق زن و شو نہ قائم ہوا ہو تو اس سے ولیمے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نہ ولیمہ ناجائز ہوتا ہے اور نہ نقلی قرار پاتاہے۔ نہ یہ سمجھنا چاہیے کہ اس طرح ولیمہ کی سنت ادا نہیں ہوتی۔ بلکہ اگر ولیمہ رخصتی ہی سے پہلے منعقد کرلیا جائے ‘ تب بھی ولیمہ ادا ہو جاتا ہے‘ صرف اس کا مستحب وقت حاصل نہیں ہوتا۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ نکاح کے وقت جب لڑکی کے گھر والے لڑکی سے ایجاب و قبول کراتے ہیں تو کیا لڑکی کا اپنی زبان سے منظوری کا اظہار کرنا ضروری ہے یا نکاح نامے پر دستخط کردینا کافی ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہمارے یہاں شادیاں عموماً اس طرح ہوتی ہیں کہ دلہن خود نکاح کی محفل میں موجود نہیں ہوتی۔ بلکہ دلہن کے گھر والوں میں سے کوئی نکاح سے پہلے اس سے اجازت لیتا ہے جو دلہن کی طرف سے وکیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ نکاح نامے میں بھی اس کا نام وکیل کے خانے میں درج ہوتا ہے۔ جب یہ وکیل لڑکی سے اجازت لینے جاتا ہے تو یہ نکاح کا ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ محض لڑکی سے نکاح کی اجازت لی جاتی ہے۔ اس میں اجازت لینے والے کو لڑکی سے یہ کہنا چاہیے کہ میں تمہارا نکاح فلاں ولد فلاں سے اتنے مہر پر کرنا چاہتا ہوں‘ کیا تمہیں منظور ہے؟ اگر لڑکی کنواری ہے تو اس کا زبان سے منظور کہنا ضروری نہیں بلکہ اتنا کافی ہے کہ وہ انکار نہ کرے ‘ البتہ زبان سے منظوری کا اظہار کر دے تو اور اچھا ہے۔ اگر صرف نکاح نامے پر دستخط کردے تو بھی اجازت ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر کوئی عورت پہلے سے شادی شدہ رہ چکی ہے اور اب اس کی یہ دوسری شادی ہے تو اس کا زبان سے منظوری کا اظہار ضروری ہے بصورت دیگر اسے منظوری نہیں سمجھا جائے گا۔ جب لڑکی سے اس طرح اجازت لے لی جائے تو جس شخص نے اجازت لی ہے وہ بحیثیت وکیل نکاح کرنے کا اختیار نکاح خواں کو دے دیتا ہے۔ پھر نکاح خواں جو الفاظ دلہا سے کہتا ہے وہ نکاح کا ایجاب ہے۔ دلہا جو جواب دیتا ہے قبول اور ان دونوں کلمات سے نکاح کی تکمیل ہو جاتی ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button