پوشیدہ حکمت
میں ایک مصیبت میں مبتلا ہو گیا ۔ اس سے نجات اور راحت حاصل کرنے کے لیے میں نے بہت دعا کی مگر قبولیت میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ نفس بے چین ہونے لگا اور دعا میں رکاوٹ ہونے لگی تو میں نے زور سے پکار کرکہا، تیرا ناس ہو ذرا اپنے معاملے میں بھی غور کر لیا ہوتا کیا تو مملوک ہے یا آزاد؟ اپنی تدبیر تو خود کرتا ہے یا کوئی اور؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ دنیا آزمائش و امتحان کا مقام ہے ۔جب تو کسی غرض کی طلب کرے اور مطلوب کے خلاف دیکھ کر صبر نہ کرے تو آزمائش کیا ہوئی ۔ امتحان تو اعراض کرنے اور مقاصد کے خلاف ہونے میں ہے ۔ لہٰذا مکلف ہونے کا معنی سمجھ ، مشکل آسان ہونے لگے گی اور گرانی خوش گوار ہو جائے گی۔ میری بات سن کر نفس نے کچھ سکون محسوس کیا تو میں نے پھر کہا کہ میرے خیال میں ایک بات اور بھی ہے ۔ وہ یہ کہ تو حق تعالیٰ سے اپنی اغراض کا تقاضا کرتا ہے مگر اپنی ذات سے حق تعالیٰ کے واجب کا تقاضا نہیں کرتا۔ یہ تو سراسر جہالت ہے جب کہ یہاں ہر معاملہ برعکس ہونا چاہیے۔کیوں کہ تو مملوک ہے اور صاحب عقل مملوک اپنے نفس سے حق مالک کی ادا کا تقاضا کیا کرتا اور وہ جانتا ہے کہ مالک پر اس کی خواہش کو پورا کرنا لازم نہیں۔ اس نے پہلے سے کچھ زیادہ سکون محسوس کیا تو میں نے پھر کہا کہ میری نزدیک ایک تیسری بات بھی ہے ۔ وہ یہ کہ تو نے قبولیت میں تاخیر محسوس کی ہے حالانکہ تو نے خود معاصی کے ذریعے اس کا راستہ روکا ہوا ہے ، تو نے اس کا راستہ کھولا ہوتا تو وہ جلد آجاتی۔
گویا تجھے علم ہی نہیں ہے کہ راحت کا سبب تقویٰ ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کا قول نہیں سنا:
’’و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً‘‘
کہ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے راستہ پیدا فرما دیتے ہیں اور یہ کہ تقویٰ اختیار کرنے والے کے کام میں آسانی پیدا فرما دیتے ہیں۔کیا اس سے یہ سمجھا نہیں جا سکتا کہ معاملہ الٹ ہو تو نتیجہ برعکس ہو جائے گا۔ آہ غفلت کا بند جو سب سے زیادہ قوی ہے مراد کے پانی کے آگے بندھا ہوا ہے جو اسے خواہشات کی کھیتیوں تک پہنچنے سے روکے ہوئے ہے۔ بس نفس کو اس بات کے صحیح ہونے کا یقین ہو ااور مطمئن ہو گیا۔ مگر میں نے پھر کہا کہ میرے نزدیک ایک بات اور بھی ہے ۔ وہ یہ کہ تجھے مال کی طلب ہے جس کے انجام سے بھی تو واقف ہے۔ بعض دفعہ اس میں مضرت بھی ہوتی ہے لہٰذا تیری مثال اس بیمار بچے کی سی ہے جو میٹھے کاتقاضا کرتا ہے اور تیرا نگہبان تیری مصلحت سے خوب واقف ہے۔ کیسے نہ ہو جس کا خود اپنا فرمان ہے:
کہ ہو سکتا ہے تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر واقعہ میں تمہارے لیے وہی بہتر ہوتی ہے۔ میرا ان باتوں سے نفس کا اطمیان بڑھتا رہا تو میں نے اسے ایک اور بات سنائی کہ اس مطلوب کے ذریعے تیرے اجر میں نقصان اور مرتبہ میں کمی واقعہ ہو سکتی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ کا ایسی مضر چیز کو تجھ سے روک لینا خود ایک عطا ہے۔ اور اگر تو اپنی آخرت بنانے والی کوئی چیز طلب کرتا ہے تو تیرے لیے بہتر ہوتا۔ اب بہتر یہی ہے کہ میری اس تفصیل کو خوب سمجھ لے ۔ کہنے لگا تو نے اپنی تشریح و تفصیل کے گلستاں میں مجھے خوب سیر کرائی یہ سمجھ آ جانے پر اب میں بالکل مطمئن اور خوش ہوں۔