مہلت افضل یا قرض معاف کرنا؟
احادیث مبارکہ میں قرض کی وصول یابی کے سلسلہ میں دو طرح کے احسانات کا تذکرہ ہے۔
(۱)۔ مہلت دینا
(۲)۔ قرض معاف کر دینا۔
اکثر علماء کے نزدیک قرض کو معاف کر دینا مہلت دینے سے زیادہ افضل ہے۔ اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس پاک ارشاد مبارک سے ہوتی ہے:
ترجمہ: ’’اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش دو تو وہ تمہارے لیے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو۔‘‘ (سورۃ البقرہ: ۲۸۰)
یہ قول اصح ہے اس لیے کہ فائدہ کا حصول ادائیگی کے بقدر ہوتا ہے اور یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ مال کو ساقط کر دینے میں محض مہلت دینے سے زیادہ ادائیگی ہے۔
تاج تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ اس قول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مہلت دینا قرض کو معاف کر دینے سے افضل ہے۔ ان کی نگاہ میں اس کی دلیل یہ ہے کہ مہلت دینے والے کو انتظار کی شدت کے باعث صبر کی تکلیف اور دل کی بے چینی کو برداشت کرنا پڑتا ہے جب کہ قرض کے معاف کر دینے میں امید ختم ہو جاتی ہے اور انسان کو اس حیثیت سے راحت حاصل ہو جاتی ہے کہ اس میں انتظار نہیں ہے۔ اس لیے بھی کہ حدیث سے ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ تنگدست کو مہلت دینے میں ہر دن کے بدلہ صدقہ کا ثواب ملے گا۔ یہ ثواب تو قرض کی ادائیگی کی مقررہ مدت سے پہلے ہے ، جب مقررہ وقت آ گیا اور مالک نے پھر بھی اسے مہلت دی تو اس مہلت کے بدلہ میں بھی ہر دن میں صدقہ کا ثواب ملے گا۔‘‘
اسی طرح مہلت دینے والے کا اجر ایام کے اضافے سے بڑھتا ہے اور ان کی کمی سے اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مہلت ہر روز انسان کی نیکیوں میں بھرپور اضافے کا موجب بنتی ہے جب کہ قرض کے معاف کر دینے میں یہ فضیلت نہیں کیونکہ اگرچہ اس کا اجر زیادہ ہی کیوں نہ ہو ‘ کبھی نہ کبھی تو ختم ہو ہی جاتا ہے۔
پہلی رائے زیادہ قوی اور راجح ہے کیونکہ حقیقی ثواب کا حصول ادائیگی اور مشقت کے بقدر ہوتا ہے نیز یہ کہ دوسری رائے میں قرض دینے والے کی رعایت کی گئی ہے اور مال پر اس کی بے چینی اور صبر کا اعتبار کرتے ہوئے اس کے لیے زیادہ اجر کی سفارش کی گئی ہے جب کہ مقروض کی حیثیت کو فراموش کر دیا گیا حالانکہ وہ زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہے اور اسے قرض کی پریشانی بھی لاحق ہے۔ جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
’’…قرض لینے سے اجتناب کرو کیونکہ اس کی ابتداء غم اور انتہا جنگ ہے۔‘‘
جب قرض دینے والا مقروض سے اس بوجھ کو دور کر دے گا تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس بوجھ و پریشانی کو باقی رکھنے والے سے کم ثواب کا حقدار ہے؟
اور یہ کہنا کہ مہلت دینے والے کا اجر ہر روز بڑھتا ہے تو یہ بات درست ہے لیکن یہ اجر کی کثرت کو ایام کی بنا پر اتنا بڑھانا کہ یہ قرض معاف کرنے کے اجر سے بڑھ جائے‘ یہ بات قابل قبول نہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹی نیکیاں جو اخلاص کے ساتھ کی جائیں بہت سے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اس لیے ہر شخص پرلازم ہے کہ وہ کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھے اور یہ کہ انسان کو فضیلت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ نیکی خود کرے یا اس کا وکیل اس کی جگہ فعل خیر کو انجام دے۔