مہنگائی کا سبب حکومتی نااہلی یا مافیا؟
مہنگائی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج بن گئی، راہ عمل کیا ہے اور راہ نجات کیسے ممکن ہے
وزیر اعظم عمران خان نے جس روز ایک سو بیس ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا اس سے محض ایک دن بعد چینی کی فی کلو قیمت میں بیس سے تیس روپے اضافہ کر دیا گیا اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آٹھ روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا، یوں حکومت جس ریلیف پیکج کو تاریخی کارنامہ قرار دے رہی تھی اور وزراء ٹاک شوز میں حکومتی اقدام کو مثالی قرار دے رہے تھے، اب مہنگائی کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ درست ہے کہ پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعلق بیرونی ہے کیونکہ وہ ہم درآمد کرتے ہے مگر چینی کی قیمتوں کا تعلق خالصتاً اندرونی معاملہ ہے، حیران کن امر یہ ہے کہ زیادہ تر شوگر ملز کے مالکان سیاستدان ہیں، سیاستدان چینی کی مارکیٹ کے 50 فیصد سے زائد حصے اور چینی کی 89 ملز میں تقریباً 40 ملز کے مالک یا شریک مالک ہیں۔ ملک میں چینی کی صنعت اور سیاست سے براہ راست وابستہ بڑے کھلاڑیوں میں جہانگیر ترین بھی ہیں، جو جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیر صنعت تھے اور اب وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے ہیں، جن کا مجموعی مارکیٹ میں سب سے بڑا حصہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری مبینہ طور پر سندھ میں اومنی گروپ کے تحت چلنے والی 9 ملز میں حصص رکھتے ہیں جبکہ بین الصوبائی تعاون کی وزیر فہمیدہ مرزا کے شوہر ذوالفقار مرزا بھی صوبے میں چینی کے کاروبار کے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ اسی طرح وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار خسرو بختیار، ان کے بھائی اور پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جوان بخت کے علاوہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز میں چینی کی صنعت سے وابستہ کرداروں میں سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان، ان کے بھائی سینیٹر ہارون اختر شامل ہیں جو سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر ریونیو بھی تھے۔پنجاب میں نواز شریف کے اہلِ خانہ اور دیگر رشتہ دار بھی متعدد شوگر ملز کے مالک ہیں، اس حوالے سے یہ خاندان 2 ملز کو جنوبی پنجاب منتقل کرنے کے تنازع میں بھی گھرا کہ جب سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے خاندانی کاروبار کو فائدہ پہنچانے کے لیے نئی ملز لگانے اور پہلے سے موجود ملز کو منتقل کرنے پر ایک دہائی سے عائد پابندی کا خاتمہ کیا تھا۔شوگر ملز کے مالکان یا شریک ملکیت رکھنے والے دیگر سیاستدانوں میں گجرات کے چوہدری، ذکاء اشرف، سردار نصراللہ دریشک، مخدوم احمد محمود اور میاں محمد اظہر شامل ہیں۔ان کے علاوہ صوبہ خیبرپختونخوا میں مشرف دور میں وفاقی وزیر رہنے والے عباس سرفراز خان 5 شوگر ملز کے مالک ہیں۔ تکنیکی طور پر حکومت اس صنعت کو کسانوں اور صارفین کے فائدے کے نام پر کنٹرول کرتی ہے کیوں کہ چینی خوراک کا ایک انتہائی اہم جز ہے، تاہم عملی طور پر یہ کنٹرول صنعتی اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے کیوں کہ حکومت کسانوں کے ملز کے لیے کافی مقدار میں خام مال اگانے کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کے لیے گنے کی قیمت سالانہ مقرر کرتی ہے، گنے کی بڑی مقدار کی خریداری یا سرپلس پیداوار کے سالوں میں برآمدات پر سبسڈی دیتی ہے۔ چینی کی حالیہ قیمتوں میں اضافے کو دیکھا جائے تو حکومت کی طرف سے نہ ٹیکس لگایا گیا ہے نہ ہی ہی کوئی دوسرا عامل ہے جس کی وجہ سے فوری طور پر چینی کی قیمت میں اضافہ کیا جاتا، کیونکہ ابھی کرشنگ کا سیزن شروع ہونا ہے، یعنی جو چینی فروخت کی جا رہی ہے وہ پرانا سٹاک ہے جس کو مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے، شوگر ملز مالکان کی زیادہ تر تعداد پنجاب کی مرکزی کابینہ اور وفاقی کی کابینہ کا حصہ ہے، جن کا تعلق تمام سیاسی جماعتوں سے ہے۔ ایسے حالات میں واضح دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت کو بیرونی مسائل کے ساتھ ساتھ اندرونی سطح پر بھی مسائل کا سامنا ہے جس میں کئی شخصیات کا تعلق حکومتی جماعت ہے، وزیر اعظم عمران خان کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کیونکہ وہ ماضی میں ببانگ دہل کہتے رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے جان بوجھ کر اپنے دائیں بائیں ایسے کاروباری افراد کو رکھا جن سے ان کے مالی مفادات وابسطہ تھے جس کی قیمت ملک و قوم کو ادا کرنی پڑتی ہے، گردش ایام دیکھیے کہ اب ایسی ہی صورتحال کا انہیں خود بھی سامنا ہے، تحریک انصاف پر تنقید کی جا رہی ہے مگر وزیراعظم عمران خان کی طرف سے حکومتی شخصیات کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اس سے قبل دو سال پہلے بھی چینی مافیا کے خلاف انکوائری ہو چکی ہے جس پر حکومت نے خوشی کے شادیانے بجائے مگر حقیقت میں کچھ نہیں ہو سکا اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج وہ مافیا پھر سرگرم ہے اور اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکال چکا ہے۔ حکومتی مؤقف ہے کہ اس کے پاس چینی کا وافر ذخیرہ موجود ہے اور کرشنگ کا سیزن شروع ہونے تک چینی کی کمی کا سامنا نہیں ہے تاہم حکومتی نمائندے یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ چند عناصر اور مافیا کی وجہ سے چینی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اس ضمن میں بنیادی سوال یہ ہے کہ مافیا کے خلاف کارروائی اور عناصر کو کس نے قابو کرنا تھا، کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ عوام کو مافیا کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے، کیا یہ ریاست کی کمزور رٹ کی علامت نہیں ہے؟ ان وجوہات کو جان کر اس کا تدارک کیا جانا چاہئے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ مہنگائی کی عالمی لہر کے سبب پاکستان پر بھی اس کے منفی اثرات پڑے ہیں مگر پچاس فیصد مہنگائی کا تعلق اندرونی مافیا سے ہے جس نے موقع کا فائدہ اٹھا کر از خود مہنگائی کر دی ہے۔ اس بے یقینی کا خاتمہ ناگزیر ہے حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔
کورونا وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر سپلائی چین متاثر ہونے کی وجہ سے مہنگائی کی لہر آئی ہے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اس لہر کا سامنا ہے جس میں ہر ملک اپنے وسائل کو سامنے رکھ کر اس سے نمٹنے کی منصوبہ بندی بنا رہا ہے، شنید ہے ہمارے پڑوسی ممالک بھارت اور بنگلہ دیش نے جو پالیسی اپنائی ہے اس سے ان دونوں ممالک میں پاکستان کی نسبت کم مہنگائی ہوئی ہے ہمیں بھی ایسی ہی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ سارا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ یوں دیکھا جائے تو عالمی لہر اور اندرونی مافیا کے سرگرم ہونے سے مہنگائی میں دو چند اضافہ ہو گیا ہے جب مہنگائی کو کنڑول کرنے کی بات کی جاتی ہے تو حکومت عذر پیش کرتی ہے، جس میں وہ کافی حد تک درست بھی ہے کیونکہ بہرصورت پوری دنیا میں مہنگائی ہوئی ہے لیکن دوسری طرف عوام جو شکوہ کر رہے ہیں وہ بھی اپنی جگہ درست ہے کیونکہ دو سال قبل کے مقابلے میں کئی گنا مہنگائی بڑھ چکی ہے، اب اگر حکومت اس بات کو سمجھ لے کہ جو مہنگائی عالمی سطح پر ہو رہی ہے اسی کے مطابق عوام پر بوجھ ڈالا جائے تو عوام اسے برداشت کر لیں گے لیکن جو عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کی آڑ میں مہنگائی کی جا رہی ہے اسے سمجھ کر اس کے سدباب کی ضرورت ہے، کہا جا سکتا ہے کہ اندرونی عناصر اور مافیا کے معاملے کو ابھی تک پوری طرح سے حکومتی سطح پر محسوس ہی نہیں کیا گیا ہے۔ ان تمام عوامل کے جمع ہونے کے بعد مہنگائی حکومت کیلئے بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ جس سے اس کی سیاسی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے، عوام بھی مشکلات کا شکار ہیں اور ملکی معیشت بھی قرضوں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔ حکومت کی ساری توجہ بیرونی عوامل پر ہے جسے کنڑول کرنا شایدکسی کے بس کی بات نہیں ہے تاہم اندرونی عوامل پر قابو پانا آسان بھی ہے اور حکومت کے فرائض میں بھی شامل ہے، مگر ہوشربا مہنگائی کے باوجود حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے، ہماری نگاہ میں عوام کو حکومت سے یہی شکوہ ہے کہ جو حکومت کی ذمہ داریاں وہ پوری کیوں نہیں کی جا رہی ہیں، یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت اندرونی مسائل پر قابو پا لے تو آدھی مہنگائی کم ہو جائے ، ان حالات میں یہ حکومت کیلئے بہت بڑی کامیابی ہو گی، لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ کیا حکومت سیاستدانوں سمیت اندرونی عناصر کے خلاف کارروائی عمل میں لائے گی؟