خوف کیا ہے؟
خوف ایک طبعی چیز ہے۔ یہ نیکوں کو بھی ہوتا ہے اور بروں کو بھی ہوتا ہے اور یہ مقام ولایت اور مقام نبوی کے منافی بھی نہیں ہے۔ طبعاً خوف آتا ہے انسان کو بعض مواقع پر سنئے قرآن عظیم الشان۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جارہے تھے تو آگے بنی اسرائیل کا ایک آدمی تھا۔ اس کی لڑائی ہو رہی تھی۔ دوسرے بندوں کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ وہ اپنے بندے کو چھڑوائیں کیونکہ دوسرا آدمی اس کے ساتھ زیادتی کر رہا تھا، زیادہ مار رہا تھا۔ اب اس کو روکنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو اس کو ایک پنچھ لگایا وہ ٹیکنیکل ناک آؤٹ ہو گیا۔ چنانچہ وہ گرا اور مر گیا۔ اللہ تیری شان! اللہ تعالیٰ نے اتنی قوت دی تھی کہ ایک مکے سے ہی بندہ مر گیا۔ دوسرا بندہ جو ان کا اپنا تھا کھسک گیا۔ اللہ تعالیٰ کی شان ! جب کچھ عرصے کے بعد ایک بار پھر گزر رہے تھے ‘ وہی ان کی قوم کا بندہ کسی دوسرے بندے سے لڑ رہا تھا۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ میں پھر اس کو چھڑاؤں ، یہ ہے ہی بے چارا مار کھانے والا۔ کبھی کسی سے مار کھا رہا ہوتا ہے، کبھی کسی سے۔ جب آپ علیہ السلام آگے بڑھے کہ میں اس کو بچاؤں تو اس کوغلط فہمی ہوئی ، وہ سمجھا کہ آج موسیٰ علیہ السلام کا مکا مجھے پڑے گا۔ تو جیسے ہی اس کو محسوس ہوا تو وہ کہنے لگا: ’’اے موسی! کل بھی آ پ نے اس بندے کو مار دیا تھا۔ آج مجھے نہ مارنا۔‘‘ راز کھل گیا۔ بات اُڑتے اُڑتے فرعون تک جا پہنچی۔ فرعون نے فوراً امراء کو بلایا اور کہا کہ دیکھو! اب ہمیں موقع ملا ہے۔ پہلے تو کوئی ایسا بہانہ نہیں مل رہا تھا۔ اب تو انہوں نے ایک بندے کو مارا ہے۔ لہٰذا قتل کا مقدمہ چلاؤ، پھانسی دو اور جان چھڑاؤ۔ وہ آپس میں مشورہ کرنے لگ گئے۔ ایک نیک آدمی وہاں تھا۔ اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عقیدت تھی۔ چنانچہ جیسے ہی مجلس ختم ہوئی اس نے آ کر بتایا:
’’یہ جو امراء ہیں نا یہ آپ کو قتل کرنے کا پلان بنا رہے ہیں۔‘‘
میں نے آپ کو بتادیا ہے ۔اب کیا؟
’’آپ یہاں سے چلے جائیں میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں۔‘‘
میرا تو یہی مشورہ ہے کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام شہر سے جلدی سے نکلے اور پیچھے مڑ کر دیکھتے تھے کہیں کوئی پولیس والا تو نہیں آ رہا۔ حالانکہ وقت کے نبی ہیں لیکن دل میں ایک خوف تھا۔ تو معلوم ہوا کہ خوف طبعی چیز ہے۔ نبی انسان ہیں اور انسان پر خوف ہوتا ہے۔ مادی طور پر بھی یہ چیز ہے اور یہ مقام ولایت اور مقام نبوت کے خلاف نہیں۔ خوف طبعی چیز ہے اور ساتھ وہ دعا بھی مانگ رہے تھے:
ترجمہ:’’یا اللہ! مجھے ظالمین کی قوم سے نجات دیجئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کو مدین کے راستے پر ڈال دیا۔ وہ ایک بستی میں جا پہنچے جسے مدین کہتے تھے۔ وہاں شعیب علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے۔ وہ آنکھوں سے نابینا ہو گئے تھے‘ بوڑھے ہو گئے تھے۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں جو بکریاں چراتی تھیں۔ وہاں انہوں نے آرام کرنے کا سوچا‘ ساتھ ان کو ایک کنواں ملا جہاں لوگ پانی پلا کر چلے گئے تھے۔ اور فقط دو لڑکیاں تھیں جو اپنی بکریوں کو بچا کھچا پانی پلا رہی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی طرف دیکھا تو ان کی طرف آئے اور کہا تم کیوں ان کو صحیح طریقے سے پانی نہیں پلاتیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوم کنویں سے پانی نکالتی ہے اور جب فارغ ہو جاتی ہے تو کنویں کے اوپر چٹان رکھ کر چلی جاتی ہے۔ ہمارے باپ بوڑھے ہیں اور ہم بچیاں ہیں، ہم اٹھا نہیں سکتیں تو جو بچا کھچا پانی ہے بس وہ پلاتی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سمجھ گئے کہ اس قوم میں بھی اونچ نیچ ہے۔ جدھر سے آیا ہوں ادھر بھی اونچ نیچ ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ میں بکریوں کو پانی پلا دیتا ہوں۔
اکیلے تھے ، چٹان کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اور پانی پلا دیا۔ اللہ کی شان ! بچیاں بھی حیران تھیں کہ اتنی قوت اللہ نے دی۔ اور وہ بچیاں گھر گئیں۔ ان میں سے ایک نے پوری کارگزاری سنائی کہ اس اس طرح آج ہماری بکریوں کو خدا کے بندے نے پانی پلا دیا اور ساتھ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اباجان آپ نے کسی نہ کسی کام کرنے والے کو تو رکھنا ہی ہے‘ اس کو آپ اپنے پاس رکھ لیں۔
’’اچھا مزدور کام کرنے والا وہی ہوتا ہے جو طاقت والا بھی ہو اور امین بھی ہو۔‘‘
تو طاقت وہ دیکھ چکی تھیں پتھر اُٹھانے سے۔ اور امین اس طرح کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نگاہیں ان کے چہروں پر اٹھی ہی نہیں تھیں۔
کہتے ہیں چند بندوں کی فراست دنیا میں انوکھی تھی۔ ایک فراست حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ لیا اور ان کی شخصیت میں نبوت کے ہونے والے نور کو ملاحظہ کر لیا۔ ایک نظر میں پہچان لیا کہ یہ بہت صفات والا بندہ ہے اور اس نے اپنے ابو کو مشورہ دیا کہ ان کو رکھ لیں۔ چنانچہ والد نے اس کو بھیجا کہ جا کر بلا کر لے آؤ۔ تو وہ آئی اور اس نے آ کر کہا کہ میرے ابو بلا رہے ہیں۔ چونکہ آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلایا ہے تو آپ چلئے۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ اچھا میں آگے چلتا ہوں اور تم پیچھے چلنا اور مجھے بتاتی رہنا کہ دائیں جانا ہے یا بائیں۔ اللہ کی شان! عام طور پر لے جانے والا رہبر آگے چلتا ہے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تقویٰ دیکھیں! اس لیے کہ اگر وہ آگے چلتی تو عین ممکن تھا کہ اس کی طرف نگاہ اٹھتی ‘ سامنے نہ پڑتی تو پشت کی جانب پڑتی تو یہ بھی تقویٰ کے خلاف ہوتا، تو فرمایا کہ میں آگے چلوں اور تم پیچھے کہ آواز کے ذریعے مجھے بتا دینا کہ دائیں جانا یا بائیں، اس طرح ان کے گھر پہنچے۔ حضرت شعیب علیہ السلام سے بات ہوئی۔
بات نو سال کی ہوئی۔ مگر ارادہ دس سال کر لیا۔ پھر اپنی داستان سنائی کہ میں کس طرح یہاں پہنچا ہوں۔ ان کی بات سن کر حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں اب ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
’’تو ظالموں کی قوم سے نجات پا گیا ہے۔‘‘
تو معلوم ہوا کہ یہ جو خوف ہوتا ہے ، یہ ایک طبعی سی چیز ہے۔
اپنے سامنے اژدھے کو دیکھتے ہیں کہ لاٹھی اژدھا بن گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام خوف کھانے لگ گئے۔ یہ فطری چیز ہے، تو خوف کا لفظ استعمال ہوتا ہے جب کہیں بیرونی چیز سے تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہو۔
مومن کو اللہ سے بھی خوف آتا ہے کیونکہ اس نے حکم خداوندی کو کہیں نظر انداز کیا ہوتا ہے ، کہیں توڑا ہوتا ہے‘ کہیں اس کے مطابق عمل نہیں کیا ہوتا۔ اس لیے اب اس کو ڈر ہوتا ہے کہ اللہ کے حضور پہنچوں گا تو مجھے سزا ملے گی، تو خوف میں سزا ملنے کا پہلو غالب ہے۔