گمراہی کے فتنے

جب مسلمان اپنے فکر و عمل میں قرآن و سنت کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹتے ہیں تو وہ آپس میں لڑائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قسم کے فتنوں سے خبردار کیا ہے اور طرح طرح کے فتنوں کی پیشگی خبر دی۔ بہت سی احادیث اس ضمن میں پیش کی گئیں جنہیں پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دور رس نگاہوں سے ہمارے موجودہ دور کے ماحول کو باقاعدہ دیکھ کر یہ باتیں ارشاد فرما رہے ہیں۔
انہی میں سے ایک حدیث جسے اگر کوئی شخص آج سے پچیس تیس سال پہلے پڑھتا تو اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب پوری طرح سمجھ میں نہ آتا، لیکن آج اس کی سچائی کو کھلی آنکھوں دیکھا جا سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم دیکھوکہ مکہ مکرمہ کا پیٹ چیر کر نہریں جیسی بنا دی گئی ہیں اور مکہ کی عمارتیں، پہاڑوں کی چوٹیوں کے برابر اونچی ہو گئی ہیں تو سمجھ لو کہ معاملہ تمہارے سر پر آ گیا ہے‘ اس لیے سنبھل کر رہو۔
یہ حدیث صدیوں سے حدیث کی کتابوں میں نقل ہوتی آ رہی ہیں‘ لیکن اُس کو پڑھنے والے یہ بات پوری طرح سمجھ نہیں سکتے تھے کہ مکہ مکرمہ کا پیـٹ چیرنے کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کا پیٹ چیر کر ’’نہروں جیسی چیزیں‘‘ کیسے بنا دی جائیں گی؟ لیکن آج جس شخص کو بھی مکہ مکرمہ واقع کتنے پہاڑوں اور چٹانوں کے پیٹ چیر کر زمین دوز راستے اور سرنگیں بنا دی گئی ہیں۔ آج مکہ مکرمہ کے شہر میں ان سرنگوں کا کیسا جال بچھا ہوا نظر آتا ہے اور ان نہروں کی طرح شفاف سڑکوں پر کس طرح ٹریفک رواں دواں ہے۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ کی عمارتیں نہ صرف پہاڑ کی چوٹیوں کے برابر ہو گئی ہیں‘ بلکہ بعض جگہ ان سے بھی اونچی چلی گئی ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ایک ایسے ماحول میں ارشاد فرمائی تھی جب نہ زمین دوز راستوں کا کوئی تصور تھا ‘ نہ یہ سوچا جا سکتا تھا کہ انسان کی بنائی ہوئی عمارتیں پہاڑ کی چوٹیوں کے برابر بلند ہو سکتی ہیں، اس ماحول میں اتنے وثوق کے ساتھ یہ ناقابل تصور بات یقینا وہ سچا پیغمبر ﷺ ہی کہہ سکتا ہے جس کی قوت بینائی زمان و مکان کی قیود سے ماورا ہوتی ہے‘ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و اصحابہ و سلم۔
آنحضرت ﷺ نے جہاں فتنوں کے زمانے کے حالات کی پیشگی خبر دی، وہاں مختلف قسم کے فتنوں کے برے اثرات سے بچنے کے لیے وہ بنیادی نکات بھی بیان فرما دیے کہ اگر کوئی شخص ان کی پابندی کر لے تو کم ازکم وہ اپنے آپ کو ان برے اثرات سے بچا سکتا ہے، اور اگر ان پر عمل کرنے والوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی جائے تو یہی نکتے ان فتنوں کا اجتماعی علاج بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
بعض احادیث سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ مسلمانوں میں قتل و غارت گری اور باہمی خونریزی کا فتنہ در حقیقت بدعملی اور گمراہی کے فتنے کا نتیجہ ہوتا ہے، یعنی جب مسلمانوں میں وہ بدعملی پھیلتی ہے ۔ اس کا نتیجہ مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی اور نااتفاقی کی صورت میں نکلتا ہے‘ اس کو ان برے اعمال کا ذاتی اثر کہہ لیجئے‘ یا بداعمالیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تازیانہ‘ لیکن ہوتا یہی ہے کہ جب مسلمان اپنے فکر و عمل میں قرآن و سنت کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹتے ہیں تو وہ آپس میں لڑائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ مسلمانوں کی پوری تاریخ اس صورت حال کی گواہی دیتی ہے۔
جب مسلمانوں میں باہمی خانہ جنگی کا فتنہ کھڑا ہو ‘ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی ہدایت یہ عطا فرمائی کہ اگر مسلمانوں کا کوئی مسلم سربراہ موجود ہو‘ اس کا برحق ہونا واضح ہو‘ اور دوسرا فریق اس کے خلاف واضح بغاوت کر رہا ہو تو تم اس سربراہ کا ساتھ دو۔ اور باغی کے فتنے کو فرو کرنے کی کوشش کرو‘لیکن اگر کوئی مسلم سربراہ موجود نہ ہو، یا اس کا برحق ہونا واضح نہ ہو ، اور یہ جو فریق آپس میں لڑ رہے ہیں ، ان کے بارے میں یہ طے کرنا مشکل ہو کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر؟ تو ایسی صورت میں تم ہر فریق سے کنارہ کشی اختیار کر کے سب سے الگ تھلگ ہو جاؤ اور کسی فریق کا ساتھ نہ دو۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
’’کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو جہنم کے دروازے کی طرف دعوت دیں گے (یعنی ان کی دعوت ایسی گمراہی پر مشتمل ہو گی جو جہنم کی طرف لے جانے والی ہے) جو شخص ان کی دعوت کو قبول کرے گا ‘ وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے، (حدیث کے راوی کہتے ہیں) میں نے کہا یا رسولؐ اللہ! اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمانوں کی اکثریت کے اور ان کے امام (سربراہ) کے ساتھ وابستہ رہنا‘‘ میں نے عرض کیا: ‘‘اگر مسلمانوں کی کوئی اکثریتی جماعت نہ ہو ، نہ امام (یعنی برحق سربراہ) تو پھر میں کیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’پھر ایسے میں ان تمام فرقوں ، پارٹیوں ، گروہوں سے مکمل علیحدگی اختیار کر لینا۔‘‘
اس قسم کی صورتِ حال کو بعض احادیث میں ‘‘اندھے بہرے فتنے‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ا س میں بھی خاص طور پر جہاں باہمی خونریزی کی بنیاد نسلی یا لسانی عصبیت ہو، اس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا:
’’جو شخص کسی اندھے جھنڈے کے نیچے اس حالت میں مارا گیا کہ وہ عصبیت کی طرف دعوت دے رہا ہو یا عصبیت کی مدد کر رہا ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث:۱۸۵۰)
ایک اورموقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو عصبیت کی دعوت دے وہ ہم میں سے نہیں‘ جو عصبیت کی خاطر لڑے‘ وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی حالت میں مرے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (ابوداؤد، حدیث: ۵۱۲۱)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عصبیت کا صحیح مطلب بھی صاف صاف ، بیان فرمایا جس کی مذمت فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یارسولؐ اللہ! عصبیت کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عصبیت یہ ہے کہ تم ناحق کام میں اپنی قوم کی مدد کرو۔‘‘ (ابوداؤد، حدیث: ۵۱۱۹)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button