عافیت پر خدا کا شکر ادا کریں

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ملفوظات میں سے ہے کہ: ’’لوگوں میں سے بعض آزمائش میں مبتلا ہیں اور بعض کو عافیت عطا کی گئی ہے‘ آزمائش زدہ لوگوں پر رحم کرو اور عافیت پر اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘
یہ بات بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ انسان ہمیشہ ان نعمتوں کو یاد رکھے اور ان کا استحضار کرے تاکہ وہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کر سکے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’جان لیجئے کہ نعمت کے شکر سے کوتاہ کرنے والی چیز جہالت و غفلت ہے‘ لوگ جہالت اور غفلت کی بنا پر نعمتوں کی معرفت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ نعمتوں کی معرفت کے بغیر ان پر شکر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ ایک نادار نے اہل بصیرت شخص سے اپنی غربت کی شکایت کی اور اس پر اظہار افسوس کیا تو انہوں نے فرمایا :
’’کیا تو یہ چاہتا ہے تو نابینا ہو اور تیرے پاس دس ہزار درہم ہوں؟‘‘
اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر فرمایا:’’کیا تو چاہتا ہے کہ تو گونگا ہو اور تیرے پاس دس ہزار درہم ہوں؟‘‘ اس نے منفی جواب دیا۔ پھر فرمایا: کیا تو چاہتا ہے تو ہاتھ پاؤں سے محروم ہو اور تیرے پاس بیس ہزار درہم ہوں؟‘‘ اس نے کہا : نہیں۔ پھر فرمایا: ’’کیا تو چاہتا ہے کہ تو مجنوں ہو اور تیرے پاس دس ہزار درہم ہوں؟ اس نے پھر نفی میں جواب دیا تو بزرگ نے فرمایا : ’’کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اپنے رب سے شکایت کرتا ہے ‘ حالانکہ تیرے پاس پچاس ہزار درہم کا سامان موجود ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
’’اے اللہ میرے جسم میں عافیت عطا فرما اور میری بصارت میں بھی عافیت عطا فرما اور اسے میرا وارث بنا دے۔‘‘
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے محض دعا پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اسباب عافیت کو اختیار فرماتے ہوئے بیماری یا مرض کی صورت میں دوا بھی استعمال فرمائی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دی۔ اسامہ بن شریک فرماتے ہیں کہ دیہات کے رہنے والے کچھ لوگوں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ! کیا ہم دوائی استعمال نہ کریں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘اے اللہ کے بندو! دوا استعمال کرو ‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی پیدا نہیں کی جس کی دوا نہ ہو‘ سوائے ایک بیماری کے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ وہ کون سی بیماری ہے؟‘‘فرمایا: ’’وہ بیماری بڑھاپا ہے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو عافیت کا سوال کرنے کی تعلیم دی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان شخص کی عیادت کی جو اتنا کمزور تھا کہ چوزہ کی طرح ہو گیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تونے کسی چیز کی دعا یا سوال کیا تھا؟‘‘اس نے عرض کیا: ’’جی ہاں! میں کہا کرتا تھا کہ اے اللہ میں آخرت میں گناہوں کی سزا نہیں بھگت سکتا تو دنیا ہی میں مجھے سزا دے دے۔‘‘ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سبحان اللہ! تو اس کی طاقت نہیں رکھتا ‘ تو نے یہ کیوں نہ کہا: اے اللہ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی اور اس کو شفا حاصل ہوگئی۔
لیکن انسان پر یہ بات بھی لازم ہے کہ وہ عافیت کا سوال اس وجہ سے نہ کرے کہ اس کی وجہ سے سرکشی اور نافرمانی میں ملوث ہو گا بلکہ اس عافیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا سوال کرے تاکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا مصداق بن جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو سکھائی تھی۔ صحابی نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو کہہ ترجمہ:’’اے اللہ میں اپنے کانوں کے شر سے‘ اپنی آنکھوں کے شر سے‘ اپنی زبان کے شر سے ‘ اپنے دل کے شر سے ‘ اپنی شرم گاہ کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button