نبوت کیلئے درکار صبر و تحمل اور حوصلہ

حضرت شعیب علیہ السلام کے یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بکریوں کے چرانے کا قصہ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔ اسی زمانے میں ایک دن ایک بکری حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے بھاگ گئی۔اس کی تلاش میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاؤں میں دوڑنے سے چھالے ہو گئے اور آپ علیہ السلام اس کی تلاش میں اتنی دور نکل گئے کہ اصل گلہ بھی نظر نہ آتا تھا۔ وہ بکری آخرکار تھک ہار کر سست ہو گئی اور کسی جگہ کھڑی ہو گئی، تب موسیٰ علیہ السلام کو وہ ملی۔
آپ نے اس پر بجائے غصہ اور مار پیٹ کے اس کی گردن جھاڑی اور پشت اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگے اور ماں کی طرح اس پر نوازش کرنے لگے۔ باوجود اس قدر اذیت برداشت کرنے کے ذرہ برابر غصہ نہ کیا اور اس کی تکلیف کو دیکھ کر آپ کا دل نرم ہو گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اور بکری سے فرمایا کہ میں نے فرض کیا کہ تجھ پر رحم نہیں آیا، اس لیے تو نے مجھے تھکایا‘ لیکن تجھے اپنے اوپر رحم کیوں نہ آیا؟ میرے پاؤں کے آبلوں اور کانٹوں پر تجھے رحم نہ آیا تو تجھے اپنے اوپر تو رحم آنا چاہیے تھا۔
اسی وقت ملائکہ سے حق تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایا کہ نبوت کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام زیبا ہیں (اس وقت تک آپ کو نبوت عطا نہ ہوئی تھی) یعنی امت کا غم کھانے والے اور ان کی طرف ایذا رسانی کے تحمل کے لیے جس حوصلہ اور جس دل و جگر کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ خوبی ان میں موجود ہے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ صبر و تحمل اور برداشت اتنی بڑی خوبی ہے کہ جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت کے لیے منتخب کر لیا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر آگ بگولہ ہوکر انتقام لینے کے بجائے برداشت سے کام لیں، اس سے گہرا دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button