بحران میں سعودی پیکج کی اہمیت

سعودی عرب نے پاکستان کیلئے 4ارب ڈالر کے مالی پیکج کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب پاکستان شدید مالی مسائل سے دو چار ہے، یہ رقم سٹیٹ بینک میں رکھی جائے گے جو بیرونی ادائیگیوں اور زرمبادلہ کو سپورٹ کرنے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی۔ اسی طرح مؤخر ادائیگیوں پر تیل فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، جو ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے ساتھ کیا جانے والا مالی تعاون مجموعی طور پر چار ارب ڈالر سے زیادہ بنتا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالرز سٹیٹ بینک میں جمع کروانے اور ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز مالیت کا تیل موخر ادائیگی کی سہولت پر دینے پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا ہے۔انھوں نے ٹوئٹر پر اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا پاکستان کی مدد کرنے اور ملک کے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالرز جمع کروانے اور ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے تیل کی مؤخر ادائیگی کی سہولت پر فراہمی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے مشکل وقت میں ساتھ کھڑا رہا اور اب بھی جب دنیا کو بڑھتی قیمتوں کا سامنا ہے وہ پاکستان کے ساتھ ہے۔سعودی مالی پیکج کے برعکس دیکھا جائے تو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ اس وقت پیکج بحالی کے جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ صرف ایک ارب ڈالر کے حصول کیلئے ہو رہے ہیں، تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان پہلے بجلی کی قیمتیں بڑھائے، پانچ سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں، روپے کی قدر میں کمی سمیت متعدد مطالبات ایسے شامل ہیں جنہیں پورا کرنا ہمارے بس کے بات نہیں ہے۔ یوں پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مشکلات کا سامنا تھا، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان شدید مالی بحران کا شکارہو چکاتھا، تحریک انصاف کی حکومت نے دو سال قبل آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے حصول کیلئے ایک معاہدہ کیا تھا،مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ملنے والی رقم کی شرائط بالکل ویسی ہی ہیں جیسے پہلے تھیں اور میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کو اس رقم پر 3.2 فیصد شرح سود ادا کرنا ہو گی۔ اب سعودی عرب کی جانب سے چار ارب ڈالر کی امداد مل جانے کے بعد ایک ارب ڈالر کا حصول بھی آسان ہو جائے گا اور پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے، اس حوالے سے دیکھا جائے تو سعودی عرب نے بہت اہم موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔واضح رہے سعودی حکومت، پاکستان کے اکاؤنٹ میں ایک سال کے لیے 3 ارب ڈالر جمع کروادیئے ہیں اور اکتوبر 2023 ء میں آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل تک اسے رولنگ میں رکھے گی۔سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لیے 4.2 ارب ڈالر فراہمی کے اعلان کے فوری بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ کا مثبت اثر پڑا ہے۔پاکستانی روپیہ بہت عرصے سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں دباؤ میں تھا جس کی وجہ سے اس کی قدر میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آ رہی تھی، تاہم سعودی عرب کی جانب سے اعلان نے اس کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا دیاہے۔21 مئی 2021 ء کو ایک امریکی ڈالر کی قیمت 152.28 روپے تھی اور پانچ مہینوں میں اس کی قیمت میں 23 روپے کا اضافہ ہوا جو 26 اکتوبر 2021 ء جو 175.27 تک جا پہنچی تھی۔اس سے قبل سعودی عرب نے 2018 ء میں زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد کے لیے پاکستان کو 3 ارب ڈالر کی نقد رقم فراہم کی تھی اور 3 ارب ڈالر کی تیل کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔تاہم جب بعد میں باہمی تعلقات میں سردمہری آئی تو اسلام آباد کو 3 میں سے 2 ارب ڈالر کے ذخائر واپس کرنے پڑے تھے۔سعودی عرب میں لاکھوں محنت کشوں کی وجہ سے بھی پاکستان کو بہت سہارا ملتاہے۔وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کی جانب سے مالی پیکج کے حصول کواگرچہ اہم کامیابی قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات کو مثالی قرار دیا ہے، تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ سال سے دوطرفہ حکومتوں کے درمیان کسی قدر سرد مہری رہی ہے ، اس سرد مہری کا پاکستان کو نقصان ہوا ہے ، کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے سعودی عرب کے ساتھ خوشگوار اور مثالی تعلقات تھے لیکن کوالالمپور سمٹ میں شامل ممالک میں پاکستان کا نام آنے پر سعودی عرب کو تحفظات تھے کیونکہ سعودی عرب یہ سمجھ رہا تھا کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے مقابلے میں ایک تنظیم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب نے کوالالمپور سمٹ کا بائیکاٹ کیا تھا اور پاکستان سے بھی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا مگرجب پاکستان نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا تب تک سرد مہری بڑھ چکی تھی،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاتھاکہ پاکستان کی اس سربراہی اجلاس میں عدم شرکت کی وجوہات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے چند تحفظات ہیں جن کو دور کرنے کے لیے پاکستان نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن دستیاب وقت میں یہ تحفظات کو دور نہ کر پانے کی وجہ سے پاکستان اب اس سمٹ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے۔یاد رہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران بھی وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر اور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے ملاقات میں مسلم امہ کی مثبت عکاسی کے لیے مل کر ایک نیا ٹی وی چینل بنانے کا اعلان کیا تھا۔پاکستان نے کوالالمپور سمٹ میںعدم شرکت کر کے کوشش کی کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا نہ ہوں لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا کیونکہ جب کانفرنس کا اعلامیہ جاری ہوا تو اس میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا، اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان بھی مجوزہ ٹی وی چینل منصوبے کا حصہ ہوگا۔سمٹ کے ابتدائی اعلامیے میں پاکستان کا ذکر کیے بغیر لکھا گیا تھا ٹی وی چینل منصوبے میں ملائیشیا، ترکی اور قطر شامل ہوں گے۔ ستمبر 2019 ء میں پاکستان، ترکی اور ملائیشیا نے انگریزی چینل شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ چینل کے ذریعے مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کیا جائے گا جبکہ ٹی وی چینل اسلاموفوبیا کا بھی مقابلہ کرے گا۔صرف کوالالمپور سمٹ ہی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری کا سبب بنے نہیں ہیں بلکہ اس سے پہلے یمن جنگ میں تعاون نہ کرنے کا بھی سعودی عرب کو دکھ ہے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاک سعودی تعلقات میں جو تلخیاں در آئی ہیں انہیں فوری طور پر دور کر کے ایسی پالیسی مرتب کی جائے جو حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل نہ ہو، کیونکہ اسی میں پاکستان کا مفاد ہے اس لئے جب بھی پاکستان پر کڑا وقت ہے اور پاکستان کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے سوائے سعودی عرب کے پاکستان کا کسی نے ساتھ نہیں دیا ہے، ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کی آئی ایم ایف سے زیادہ مدد کی ہے لیکن اس تعاون میں اس نے کسی قسم کی شرائط عائد نہیں کی ہیں، ماضی میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ جب ادائیگی کا وقت آیا تو پاکستان کے پاس مطلوبہ رقم نہیں تھی تو سعودی عرب نے پاکستان کو مالی پیکج فراہم کیا،بلکہ ادھار تیل فراہم کر کے ہمیں ریلیف مہیا کیا تاکہ پاکستان مشکل سے باہر نکل سکے۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر اس موقع پر سعودی عرب مدد نہ کرتا تو ہمارے لئے معاشی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا، امید کی جانی چاہئے کہ پاک سعودی تعلقات میں سرد مہری ختم ہو گی اور پاکستان کی طرف سے ایسی پالیسی مرتب کی جائے جو دونوں ممالک کیلئے مفید ثابت ہو ۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button