سارے گستاخ تڑپ تڑپ کر مر گئے
مکہ مکرمہ میں چند شرپسند سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرتے اور مختلف قسم کی ایذا رسانی کے ساتھ ساتھ برسرِ عام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق بھی اُڑاتے تھے۔ یہ کیفیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ خود باری تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ:’’ہمیں معلوم ہے کہ ان کی (تکلیف دہ) باتوں سے آپ کا سینہ تنگ پڑ رہا ہے۔‘‘ (الحجر)
نیز فرمایا: ترجمہ:’’ان مذاق اُڑانے والوں کے لیے آپ کی خاطر ہم کافی ہیں۔‘‘
اسود بن ابی ذمعہ، اسود بن عبدیغوث ، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل اور حارث بن قیس ، یہ پانچوں سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑانے والوں میں پیش پیش تھے۔ ایک دن آپ کے پاس جبریل امین علیہ السلام تشریف لائے۔ آپ نے ان سرداروں کی شکایت کی، پھر (راہ چلتے) آپ نے جبریل علیہ السلام کو ولید بن مغیرہ دکھایا تو اُنہوں نے اس کے پاؤں کی طرف اشارہ کیا‘ آپ نے پوچھا: جبریل یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ کے حکم سے آپ کی طرف سے میں اس کے لیے کافی ہوں، پھرآپ نے انہیں حارث دکھایا تو جبریل علیہ السلام نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا ۔ آپ نے پوچھا: یہ تم نے کیا کیا؟ انہوں نے جواب دیا: آپ کی طرف سے میں اس کے لیے کافی ہوں۔ آپ نے انہیں عاص بن وائل دکھایا۔ انہوں نے اس کی ایڑی کی طرف اشارہ کیا۔ آپ نے پھر پوچھا: اس کا مطلب کیا؟ انہوں نے جواب دیا: میں آپ کی طرف سے اس کی طرف کافی ہو گیا ہوں۔ پھر آپ نے انہیں اسود بن مطلب دکھایا۔ انہوں نے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔ آپ نے پھر پوچھا: یہ کیا؟ انہوں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں آپ کی طرف سے میں اس کے لیے کافی ہو گیا ہوں۔ پھر آپ نے انہیں اسود بن عبدیغوث دکھایا تو انہوں نے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: میں اس کے لیے کافی ہو گیا ہوں۔
اس کے بعد ان بدبختوں کا انجام کیا ہوا؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ سب لوگ انہی اعضائے جسم کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو کر واصل جہنم ہوئے جن کی طرف جبریل امین نے اشارہ کیا تھا۔ ولید بن مغیرہ کے پاؤں میں بھالا لگا، اس کی رگ کٹ گئی، وہ اسی سے مر گیا۔ حارث کے پیٹ میں پانی بھر گیا حتیٰ کہ منہ سے گندگی نکلنے لگی۔ وہ اسی حالت میں مرا۔ عاص کے پاؤں میں کانٹا نما کوئی چیز چبھی، زخم پھیل گیا ۔وہ اسی سے مر گیا۔ اسود بن عبدالمطلب ایک درخت کے نیچے لیٹا ہوا تھا۔ اچانک چیخنے لگا: بیٹا! مجھے بچاؤ۔ میری آنکھ میں کانٹا چبھ گیا ہے۔ سخت تکلیف دے رہا ہے۔ اس نے کہا: ہمیں تو کچھ نظر آتا۔ وہ اسی تکلیف سے اندھا ہو گیا۔ اسی طرح اسود بن عبدیغوث کے سر میں پھوڑا نکلا اور وہ اسی زخم کی اذیت سے جہنم کی غذا بن گیا۔
یہ سب کے سب گستاخان نبوت قدرت کے انتقام کا نشانہ بنے۔ ہر چند کہ یہ کسی مسلمان کے ہاتھوں جہنم رسید نہیں ہوئے مگر خود اللہ تعالیٰ نے ان پر مختلف قسم کے عذاب مسلط کر دیے اور انہیں رسوائی کی موت مار دیا تاکہ وہ بعد میں آنے والے گستاخان رسالت مآب کے لیے نشانِ عبرت بن جائیں۔ اگر اس قسم کے گستاخ اور بے ادب لوگ کسی مسلمان کے جذبۂ ایمان کے جوش و انتقام سے بچ بھی گئے تو اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ وہ اپنے لاتعداد لشکروں میں سے کسی بھی لشکر کو گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلط کر دیتا ہے۔