کیا حکومت مسائل کی دلدل میں پھنس چکی؟
تحریک انصاف کی حکومت واضح معاشی پالیسی کے فقدان اور متعدد وزراء خزانہ تبدیل کرنے کے باعث ملک کو معاشی مسائل کی دلدل سے باہر نکالنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت کو سب سے بڑے جس چیلنج کا سامنا ہے وہ مہنگائی ہے، حکومتی وزراء کی جانب سے خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہونے کا دعویٰ اپنی جگہ، مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور عوام کو اعتماد میں لینے کی بجائے مہنگائی کے فضائل گنوائے جا رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے پاس فوری طور پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ایسے حالات میں حکومت آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جیسے مالیاتی اداروں سے ریلیف حاصل کرنے کا سوچ رہی ہے اسے اپوزیشن جماعتوں کی جابب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے، کیونکہ مہنگائی کی حالیہ لہر کو جواز بنا کر اپوزیشن جماعتیں احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو حکومت کیلئے بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا مشکل ہو جائے گا۔ فی الحال حکومت چار محاذوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک یہ کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے پاکستان کو مزید چار ماہ تک گرے لسٹ میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے پاکستان کے اسٹیٹس میں تبدیلی کا فیصلہ فروری 2022 میں ہونیوالے آئندہ سیشن میں ہو گا۔ اس تناظر میں فیٹف صدر ڈاکٹر مارکوس پلیئر کاکہنا ہے کہ پاکستان نے 34میں سے 30نکات پر عمل مکمل کر لیاہے ، استغاثہ اور قانون سازی میں مزید کام کی ضرورت ہے، پاکستان مجموعی طور پر نئے ایکشن پلان پر بہتر کار کردگی دکھا رہا ہے، جلد باقی 4نکات پر بھی عمل کرے۔ دوسری جانب وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ 2021ء ایکشن پلان کے باقی3اور 2018ء ایکشن پلان کے آخری نکتے پر پاکستان نے مقررہ مدت سے پہلے ہی خاطر خواہ پیش رفت کی ہے،دونوں پلانز کے مکمل اہداف حاصل کریں گے۔ فیٹف سربراہ کے مطابق پاکستان مجموعی طور پر اس نئے ایکشن پلان پر بہتر کار کردگی دکھا رہا ہے، اس میں حکام کی فنانشل نگرانی اور بین الاقوامی تعاون کے لیے قانونی ترامیم شامل ہیں، پاکستانی حکومت ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے اور ہم انہیں کہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد باقی چار نکات پر عمل در آمد کریں۔ ایف اے ٹی ایف کا رویہ پاکستان کے ساتھ جانبدارانہ ہے کیونکہ وہ مسلسل پاکستان کو گرے لسٹ میں بھی رکھے ہوئے ہے اور پاکستان سے مزید اقدامات کا بھی مطالبہ کرتا ہے، اکثر نکات پر عمل درآمد اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان نے فنانشل ٹاسک فورس کی ڈیمانڈز پوری کر دی ہیں مگر بھارتی لابی سٹرونگ ہونے کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے جب انہیں کہنے کو کچھ نہیں ملا تو گھسا پٹا عذر تلاش لیا گیا کہ دہشتگردوں کی فنڈنگ کیلئے روک تھام کی جائے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ دہشتگردی سے متاثر ہونے والا ملک ہے، اس مقصد کیلئے پاکستان نے جانی و مالی قربانیاں پیش کی ہیں، افواج پاکستان کی قربانیاں دنیا سے مخفی نہیں ہیں، ان قربانیوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جاتا مگر صورتحال یکسر مختلف ہے، عالمی قوتوںکو جابندارانہ رویہ کو ترک کر کے آگے بڑھنا ہو گا، چونکہ مذکورہ باتیں سفارت کاری کے زمرے میں آتی ہیں اس لئے حکومت چاہئے کہ سفارت کاری پر توجہ دے تاکہ دنیا کے سامنے پاکستان کی قربانیوں کو پیش کر کے حقیقت سے آگاہ کیا جائے ،اب تک کے حالات سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ تحریک انصاف کو بین الاقوامی تعلقات میں خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کی دوسری مشکل آئی ایم ایف کے ساتھ کئے جانے والے وہ معاہدے ہیں جو مہنگائی کا سبب بن رہے ہیں، اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو دی جانے والی قسط روک لی ہے، اس حوالے سے واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات میں کوئی حوصلہ افزا بات سامنے نہیں آ سکی ہے بلکہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ و ریونیو شوکت ترین، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات ختم کیے بغیر واشنگٹن سے روانہ ہوگئے ہیں۔ یہ مذاکرات آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی انتہائی ضروری توثیق کا باعث بن سکتے تھے جبکہ مالیاتی ادارے کے ساتھ 6 ارب ڈالر کی قرض سہولت کی بحالی کے لیے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے سیکریٹری خزانہ واشنگٹن میں ہی موجود ہیں۔یہ مذاکرات آئی ایم ایف کی طرف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے کیے جا رہے ہیں۔شوکت ترین اکتوبر کے اوائل میں واشنگٹن پہنچے تھے اور دس روز بعد 15 اکتوبر کو نیویارک روانہ ہوگئے تھے۔انہیں وہاں سے لندن روانہ ہونا تھا، بدھ کی شام تک پاکستانی وفد کو مثبت نتیجہ آنے کی امید تھی اور اس نے میڈیا کے ساتھ اچھی خبر شیئر کرنے کے لیے جمعرات کی صبح نیوز بریفنگ شیڈول کی تھی، تاہم اسی رات وفد نے میڈیا کو بریفنگ منسوخ ہونے کا پیغام بھیج دیا۔جمعرات کو شوکت ترین نیویارک سے بین الاقوامی پرواز پکڑنے کے لیے خاموشی سے واشنگٹن سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوگئے۔وہ ممکنہ طور پر وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب میں ان کے ہمراہ ہوں گے جو رواں ہفتے کے آخر میں ہونے کا امکان ہے۔ واشنگٹن کے دو دوروں کے دوران شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جیورجیوا اور دیگر حکام سے دو بار ملاقاتیں کیں اور دونوں ملاقاتوں کے فریقین نے امید ظاہر کی کہ مذاکرات کا جلد مثبت نتیجہ نکلے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔تاہم پاکستانی حکام کا اب بھی اصرار ہے کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہم اچھی جگہ پر ہیں اور ہمیں مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ اگرچہ شوکت ترین کی ٹیم آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے خاموش ہے، تاہم فنڈ کے ذرائع نے کہا کہ حکومت آمدنی اور اخراجات کے درمیان بڑھتے فرق کو کم کرنے کے لیے کچھ ضروری اقدامات اٹھانے میں تذبذب کا شکار ہے۔حکومت کو بظاہر یہ خدشات ہیں کہ ان اقدامات کے باعث ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور حکومت، عام انتخابات سے کچھ عرصے قبل یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔مالیاتی فنڈ کی جانب سے جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ان میں بجلی اور پی آئی اے و اسٹیل ملز سمیت حکومت ادارے شامل ہیں۔فنڈ کے ذرائع نے کہا کہ ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنا حقیقی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے حال ہی میں کورونا وبا کے بحران سے نمٹنے میں مدد کے لیے پاکستان کو 2.7 ارب ڈالر جاری کیے تھے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ڈالر کی قدر میں اضافے اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے چیلنج کا سامنا ہے تاہم اب گورنر سٹیٹ بینک کہا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور یہ کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اچھی بات ہے، حالانکہ اس سے پہلے لوگ یہ سمجھ رہے کہ ماضی کی حکومتوں کی برعکس حکومت نے ڈالر کی قیمت کا مارکیٹ ویلیو پر آزاد چھوڑ دیا ہے، اب گورنر سٹیٹ بینک ہی اس کے خلاف بات کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈالر کی قیمت حکومت کی منشا کے مطابق بڑھ رہی تھی، حکومت کا یہ مؤقف واقعی حیران کن ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر رضا باقر کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سے ملک میں ترسیلات زر بھیجنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو فائدہ ہوا ہے۔ یہ بیان انہوں نے برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ایک پریس کانفرنس دوران دیا ہے کہ انتھک محنت و کوششوں سے کما کر اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر شرح تبادلہ میں فرق آنے کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ شرح تبادلہ بڑھنے سے کچھ لوگوں کو نقصان ہوا ہے تو کچھ اس سے مستفید بھی ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فرض کریں کہ رواں سال ہماری ترسیلات 30 ارب ڈالر پہنچ جاتی ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہ اس سے زیادہ ہوں گی اور اگر گزشتہ چند ماہ میں روپے کی قدر 10 فیصد بھی کم ہوئی ہے اور اوورسیز پاکستانیوں کے خاندانوں کو اضافی 3 ارب ڈالر ملیں گے جو 500 ارب روپے سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔ رضا باقر نے زور دیا کہ ان کی نشاندہی کی جائے جو مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں تو ہمیں انہیں بھی نہیں بھولنا چاہیے جو اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔گورنر اسٹیٹ بینک کا یہ بیان روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کے بعد سامنے آیا ہے۔ گزشتہ روز بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اونچی اڑان جاری رہی اور ٹرینڈ ماہرین نے اس رجحان کو ملک کے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے منسوب کیا ہے، گزشتہ روز انٹر بینک میں 55 پیسے اضافے کے بعد ڈالر 173 روپے 50 پیسے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا تھا۔فاریکس ایسوسی ایشن پاکستان کے مطابق گزشتہ روز کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قیمت خرید 173 روپے 40 پیسے جبکہ قیمتِ فروخت 173 روپے 50 پیسے رہی۔ گورنر سٹیٹ بینک نے اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ڈالر کی قیمت میں اضافے کی جو منطق بیان کی ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اوورسیز پاکستان کی تعداد پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے، بائیس کروڑ عوام کی ضروریات کا خیال رکھنے کی بجائے محض پچاس لاکھ لوگوںکو فائدہ پہنچانے کیلیے معاشی پالیسی ترتیب دینا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کھلوانے سے اوورسیزپاکستانیوں کو سات فیصد منافع دیا جا رہا ہے تو بیرون ممالک مقیم پاکستانی اس سے مستفید ہونے کیلئے بیرون ممالک سے قرض حاصل کر کے بھی پاکستان رقم بھجوا رہے ہیں کیونکہ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ ان کی بھیجی گئی رقم ڈبل ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر منافع بھی حاصل ہو رہا ہے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ مسئلے کا دیر پا حل ہے؟ دریں اثنا حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت ترین احتجاج کا بھی سامنا ہے، مسلم لیگ ن کی جانب سے ایک روز قبل جڑواں شہروں میں احتجاج کیا گیا جس میں بلا شبہ شہریوں کی بڑی تعداد شامل تھی، اس میں تاجر برادری اور وکلاء نے بھی شرکت کی، یہ علامات اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ حکومت کو مشکلات نے گھیر لیا ہے ان مشکلات سے نکلنے کی صرف ایک ہی سبیل ہے کہ وہ جامع معاشی پالیسی تشکیل دے کر عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرے۔