خورشید رسالت صلی اللہ علیہ وسلم
رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت امت مسلمہ کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جناب عبدالمطلب نے خود بھی یتیمی کا زمانہ دیکھا ہوا تھا۔ اپنے چوبیس سالہ نوجوان پیارے فرزند عبداللہ کی اس یادگار کے پیدا ہونے کی خبر سنتے ہی گھر آئے اور بچے کو خانہ کعبہ میں لے گئے اور دعا مانگ کر واپس لائے۔ ساتویں دن قربانی کی اور تمام قریش کو دعوت دی۔ دعوت کھا کر لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے بچے کا نام کیا رکھا۔ عبدالمطلب نے کہا: ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)‘‘
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ نام رکھا گیا ، قوم نے اس نام پر تعجب کیا،لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ نے اپنے خاندان کے مروجہ ناموں کو چھوڑ کر یہ نام کیوں رکھا؟ کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرا بچہ دنیا بھر ستائش اور تعریف کا شایان قرار پائے۔
قریش میں اونچے گھرانوں کی عورتیں اپنے بچوں کو دودھ خود نہیں پلاتی تھیں، دیہاتوں سے دائیوں کی ٹولیاں آتیں ۔ وہ بچوں کو اپنے یہاں لے جاتیں۔ ان کو دودھ پلاتیں۔ ان کی پرورش و پرداخت کرتیں۔ پھر جب وہ بڑے ہو جاتے تو واپس کر جاتیں اور دوسرے بچے لے جاتیں۔ اس سے بچے خوب تندرست رہتے اور فصیح عربی بھی سیکھ لیتے ۔ مگر دائیوں کے آنے کے موسم متعین تھے۔ محمدؐ کی ولادت ہوئی ، تو اس وقت کوئی دائی نہ ملی۔حضرت عبداللہ کا بھائی تھا ابولہب ۔ اس کی ایک باندی تھی ثوبیہ … دو تین دن آمنہ نے خود دودھ پلایا۔ پھر بچہ کو ثوبیہ کے حوالہ کر دیا ۔ کہ جب تک کوئی دائی نہ ملے ، اس کو وہ دودھ پلائے۔
ثوبیہ نے بس کچھ دن ہی دودھ پلایا تھا، کہ قبیلہ بنی سعد کی دائیاں آ گئیں۔
دائیاں بچے تلاش کرنے لگیں۔ وہ گھروں میں جاتیں۔ مائوں کو اپنی خدمات پیش کرتیں۔ مائیں جس کو پسند کرتیں ، اپنا بچہ اس کے حوالے کر دیتیں۔
ساری مائوں نے دائیاں چن لیں ، اور ساری دائیوں کی گودیں بھر گئیں۔ ہاں صرف ایک دائی رہ گئی۔ اس کو کسی نے نہ پوچھا۔ اس لیے کہ ذرا کمزور اور لاغر تھی۔ مفلسی کا بھی شکار تھی۔ یہ تھی ابو ذویب کی بیٹی حلیمہ۔
اور بچہ بھی صرف ایک ہی رہ گیا تھا کہ دائیاں اس سے دور ہی دور رہیں، اور کوئی اسے لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ بچہ تھا حضرت عبداللہ کا بیٹا محمدؐ!
دائیوں نے سنا کہ محمد ؐ یتیم ہے۔ باپ کے سایہ سے محروم ہے۔ اس لیے انہوں نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ انہوں نے اس کی پرورش اور ان کو دودھ پلانا بے سود سمجھا۔ وہ بولیں ، اس یتیم کو لے کر کیا کریں! اس کا دادا ہمیں کیا دے گا ؟ ماں سے بھی کیا مل جائے گا؟
اب واپسی کا وقت آ گیا ، اور دائیوں نے گھر لوٹنے کا ارادہ کیا، ہر ایک خوش تھی کہ اس کی گود میں بچہ تھا۔
حلیمہ کا شوہر بھی ساتھ تھا ۔ حلیمہ نے اس سے کہا:
’’بخدا! مجھے شرم آتی ہے کہ ساری سہیلیوں کی گودیں بھری ہوں اور ایک میری ہی گود خالی رہے۔ میں تو جاتی ہوں ۔ اسی یتیم کو لے لیتی ہوں۔ خالی ہاتھ لوٹنے سے یتیم کو لے جانا بہرحال بہتر ہے۔ ‘‘
شوہر نے کہا:
جائو لے آئو، کیا ہرج ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی میں برکت دے۔
چنانچہ حلیمہ بچے کو لینے کے لیے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا پہنچیں۔
حضرت آمنہ کو ملال تھا کہ ان کے لال کو کسی نے نہ پوچھا۔ سہیلیوں کے بچے ہاتھوں ہاتھ لیے گئے ۔ مگر ان کے جگر پارہ کو کسی نے لینا گوارہ نہ کیا۔ حلیمہ نے بچے کو لے لیا توحضرت آمنہ کا بجھا ہوا چہرہ بھی خوشی سے دمک اٹھا۔
حلیمہ نے محمدؐ کو چھاتی سے لگایا، اور منہ میں سوکھی پستان دے دی جس میں دودھ برائے نام ہی تھا۔
لیکن…! حلیمہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی !! پستان منہ میں دیتے ہی انہیں ایسا معلوم ہوا ، جیسے دودھ کی سوتیں جاری ہو گئیں۔ یکایک چھاتی بھر گئی ۔ بچہ دودھ پی رہا تھا اور دودھ اس کے منہ سے ٹپکا پڑ رہا تھا۔
محمدؐ سیر ہو چکے تو حلیمہ کے بچے نے بھی جی بھر کر پیا۔ حالانکہ اس سے پہلے تنہا اسی کے لیے دودھ ناکافی ہوتا تھا۔ پیتا، لیکن کبھی سیر ہونے کی نوبت نہ آتی۔ چھاتی چوستا اور چوس کے رَہ جاتا۔
حلیمہ کی ایک اونٹنی تھی ۔ دبلی پتلی، بالکل مریل، بھوک لگی، تو شوہر اسے دوہنے اُٹھے ۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ وہ تھن جو ہمیشہ سوکھا رہتا تھا آج بالکل بھرا ہوا تھا۔ اور خود بخود دودھ ٹپک رہا تھا۔ شوہر نے خود بھی پیا، بیوی کو بھی پلایا۔ دونوں نے جی بھر کے پیا۔
رات ہوئی تو دونوں نے بچوں کو پہلو میں سلایا ۔ پھر خود بھی سو رہے، نیند اتنے آرام اور چین کی تھی بالکل ہی بے خبر ہو گئے۔
پھر صبح ہوئی تو شوہر بولا:
حلیمہ کیا خیال ہے؟ بخدا بہت مبارک بچہ پا گئیں تم۔
حلیمہ بولیں:
بخدا میرا بھی یہی خیال ہے۔
پھر دائیوں کا قافلہ گھر کو لوٹا۔ حلیمہ کی گدھیا آگے آگے تھی اور مستانہ وار بڑھ رہی تھی۔ سہیلیوں نے یہ دیکھا تو آواز دی۔
واہ ری ، ابو ذویب کی بیٹی!! ذرا ٹھہرو نا۔ ہمیں بھی تو آ لینے دو۔ ارے یہ وہی گدھیا تو ہے ، جس پر تم آئی تھیں۔ یہ تو راستہ میں رک رک جاتی تھی۔ بار بار تم پیچھے ہو جاتی تھیں!!!
حلیمہ نے کہا :
ہاں، ہاں ، بخدا یہ وہی ہے !
سہلیاں بولیں:
بخدا یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔
اب حلیمہ کے یہاں برکتوں کی بارش ہونے لگی۔ ہر ہر چیز میں برکت ظاہر ہو رہی تھی۔ جانور موٹے ہو گئے۔ دودھ کے تھن پھول آئے۔ ہر طرف برکت ہی برکت تھی۔ رفتہ رفتہ دو سال گزر گئے ۔ آمنہ کا لال حلیمہ کا دودھ پیتا۔ حلیمہ کی ایک بیٹی تھی شیماء ، اس کی گودیوں میں ہمکتا، صحرا کی کھلی فضا ہوتی اور دیہات کی سادہ زندگی ۔ جسم تیزی سے بڑھا۔ ہاتھ پیر میں طاقت آ گئی ۔ اور بچہ خوب تندرست ہو گیا۔
شیرخواری کے دن پورے ہو گئے ۔ اب وقت آیا کہ بچہ پھر ماں کی گود میں جائے اور اس کے گھر کی رونق بنے۔
لیکن کیا حلیمہ اس بچے کو جدا کر دیں؟ ایسے بچے کو جو ان کے لیے سراپا برکت تھا ۔ مجسم رحمت تھا۔ باعثِ راحت تھا اورموجب سعادت تھا۔ کسی طرح بھی طبیعت اس کو چھوڑنے پر تیار نہ تھی۔ تمنا تھی کہ کچھ دنوں وہ ساتھ رہے، کہ برکتوں کا سلسلہ تا دیر قائم رہے ۔
وہ بچے کو لے کر کر ماں کے گھر کی طرف چلیں۔ لیکن ارادہ تھا کہ ان سے گزارش کریں گی کہ بچے کو کچھ دن اور ساتھ رکھنے کی اجازت دے دیں۔
چنانچہ وہ حضرت آمنہ کے پاس آئیں اور بولیں :
مجھے اندیشہ ہے کہ اگر محمدؐ ابھی سے مکہ میں رہ گیا تو کہیں یہاں کی آب و ہوا سے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ کیوں نہ آپ کچھ دن اور ہمارے یہاں رہنے دیں ۔ ذرا اور بڑا ہو جائے ،پھر آ جائے گا۔
اس طرح دائی حلیمہ حضرت آمنہ سے ضد کرتی رہیں۔ پیہم اصرار کرتی رہیں۔ طرح طرح سے مناتی رہیں۔ مکہ کی آب و ہوا سے ڈراتی رہیں ۔ یہاں تک کہ وہ تیار ہو گئیں۔
اب کیا تھا ، حلیمہ کا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا ۔ آنکھیں چمک اٹھیں اور چہرہ دمک اٹھا اور وہ محمدؐ کو لے کر پھر اپنے گھر آ گئیں۔
محمدؐ پھر اسی صحرا میں آ گئے۔ اب پھر وہی کھلی فضا تھی ۔ ریت کے ٹیلے تھے۔ چکنے چکنے پتھر تھے۔ وہی ساتھی اور وہی ہمجولی تھے۔ محمد ؐ پھر اسی طرح پتھروں سے کھیلتے ۔ ریت پر اچھلتے ، اور بچوں کے ساتھ اِدھر سے اُدھر دوڑتے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب پانچ سال کے ہو گئے۔
حلیمہ سے جدائی کی ساعت پھر آن پہنچی۔
محمدؐ سے حلیمہ کو بے حد محبت تھی ۔ وہ سچ مچ اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔ ان کے دل کا سکون تھے۔ محمد ؐ کو حلیمہ سے بھی بے حد محبت تھی ۔ نبوت ملنے کے بعد بھی جب وہ آپ کے پاس آئیں تو آپ ’’میری ماں ، میری ماں‘‘ کہہ کر لپٹ گئے۔ حلیمہ کے لیے محمدؐ کی جدائی سوہانِ روح تھی لیکن کرتیں کیا؟ کہ اب گھر پہنچانا ضروری تھا اور مزید روکنا ممکن نہ تھا۔
پھر ایک وجہ اور بھی ہوئی۔ جس کی وجہ سے حلیمہ نے جلدی کی۔
ایک روز وہ بیٹھی ہوئی تھیں اور ساتھ میں محمد ؐ بھی تھے کہ اتنے میں حبشہ کے کچھ عیسائیوں کا گزر ہوا۔ بچے پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھہر گئے، قریب آئے اور غور سے دیکھنے لگے۔ ایک ایک چیز کا جائزہ لینے لگے۔ حلیمہ سے پوچھا بھی:
کیسا بچہ ہے یہ؟
اس بچہ کو لے لیں… اس کو اپنے یہاں لے چلیںگے۔ یہ بچہ ایک عظیم انسان ہو گا۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ کیا بنے گا!
حلیمہ ان کا مطلب سمجھ گئیں ۔ ان کے ارادوں کو بھانپ گئیں۔ ان کی سازشوں سے گھبرا اُٹھیں۔ ڈریں کہ کہیں سچ مچ وہ اسے چھین نہ لیں۔ موقع پا کر اُچک نہ لیں۔ یا کوئی آزار نہ پہنچا دیں۔ چنانچہ وہ نظر بچا کر بھاگ کھڑی ہوئیں اور بچے کو لے کر غائب ہو گئیں۔ حالانکہ انہیں امید نہ تھی کہ وہ اس طرح بھاگ سکیں گی، اور بچے کو ان سے بچا سکیں گی۔
پھر جتنی جلدی ممکن تھا ، وہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچیں اور ان کی امانت ان کے حوالے کی۔ تب جا کرکہیں اطمینان کا سانس لیا۔
اب ماں کی مامتا تھی ، اور دادا کی سرپرستی ۔ دونوں محمدؐ سے بہت پیارکرتے۔ ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھتے اور ہر طرح سے آپؐ کا خیال رکھتے۔ آپؐ چھ برس کے ہو گئے، تو ماں کا دل چاہا کہ چل کر شوہر کی قبر دیکھیں۔ چنانچہ وہ مدینہ کے لیے روانہ ہو گئیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے گئیں۔حضرت عبداللہ کی ایک باندی تھی ام ایمن، وہ بھی سفر میں ساتھ تھیں۔ وہاں ایک مشہور خاندان تھا بنی نجار۔ محمد ؐ کے دادا کی ننھیال اسی خاندان میں تھی، اس لیے بی بی آمنہؓ جا کر وہیں ٹھہریں۔
بی بی آمنہؓ مدینہ پہنچیں ، تو پیارے بیٹے کو وہ گھر دکھایا ، جہاں اس کے پیارے باپ نے وفات پائی تھی۔ وہ جگہ بھی دکھائی جہاں وہ ہمیشہ کی نیند سو رہے تھے۔
آج پہلا دن تھا کہ اس معصوم بچے نے یتیمی کا مفہوم سمجھا ۔ آج پہلا موقع تھا کہ اس کے شیشۂ دل پر رنج و غم کا عکس پڑا۔
وہاں ایک مہینہ گزار کر بی بی آمنہ نے گھر لوٹنے کا ارادہ کیا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ کے لیے روانہ ہو گئیں۔
شوہر کی طرح بی بی آمنہ ؓ بھی بیمار پڑ گئیں ۔ جحفہ سے ۲۳ میل پر ایک گائوں ہے ابواء۔ وہاں پہنچیں تو حالت نازک ہو گئی ، اور پھر سنبھل نہ سکیں۔ وفات پا گئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔ حضرت عبداللہ کی وفات بھی پردیس میں ہوئی تھی ! اور دفن بھی اسی طرح ہوئے تھے۔ قوم و وطن سے بہت دور ۔
آپ ؐ یتیم تھے ۔ باپ کے سایہ سے محروم تھے ۔ ابھی اسی یتیمی کا شعور ہوا ہی تھا کہ ماں بھی داغِ مفارقت دے گئیں…! باپ کی قبر دیکھی ہی تھی کہ ماں کی قبر بھی تیار ہو گئی۔
اب آپؐ تنہا رہ گئے۔ ماں ساتھ تھیں ، تب بھی آپ کو یتیمی کا ملال تھا ۔ بھلا دل پر کیا بیتی ہو گی جب یہ سہارا بھی سہارا بھی ٹوٹ گیا…؟ ایک سے بڑھ کر دوسرا…!
اُم ایمن نے آپ ؐ کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور بڑے پیار سے گھر لائیں ۔مکہ پہنچے تو آپؐ بلک بلک کر رو رہے تھے۔ آج حضرت آمنہ کے لال کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔
اس حادثہ کا عبدالمطلب پر بڑا اثر ہوا اور محمدؐ کے لیے ان کے سینہ میں ماں کی محبت اور باپ کی شفقت اُبل پڑی۔ اب وہ آپ ؐ پر بے انتہا مہربان ہو گئے۔ پہلے سے زیادہ ماننے لگے۔ بڑی محبت سے پیش آتے۔ لطف و کرم کی بارش کرتے۔ ہر آن آپؐ کا خیال رکھتے۔ ہر طرح سے دلجوئی فرماتے۔ اپنی ذات اور اپنی اولاد سے بڑھ کر آپؐ کی فکر رکھتے۔
عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ کعبہ کے زیرِ سایہ اپنی گدی پر بیٹھتے تو بیٹے ادب و احترام میں گدی سے ذرا دور بیٹھتے ہوئے ۔ لیکن محمدؐ آ جاتے تو عبدالمطلب انہیں اپنے پاس بلاتے، اپنی گدی پر بٹھاتے ، اور پیار سے پیٹھ سہلاتے۔ لیکن عبدالمطلب بھی زیادہ نہ ٹھہرے۔ محمدؐ ابھی آٹھ سال کے ہوئے تھے کہ دادا بھی چل بسے۔ دادا کی موت پر آپؐ کے دل کو سخت صدمہ پہنچا، جیسا اس سے پہلے ماں باپ کی موت پر ہوا تھا۔
نہیں، دادا کا غم ماں باپ سے بھی سوا تھا۔ اب آپ ؐ میں جذبات و احساسات میں وسعت اور گہرائی آ رہی تھی۔ لطف و محبت کی حقیقت کو آپ سمجھنے لگے تھے۔ نوازش و کرم کی قدر و قیمت پہچاننے لگے تھے۔ اس لیے محروم کا احساس بھی اتنا ہی شدید تھا۔ اس کے چھن جانے کا غم بھی اتنا ہی گہرا تھا۔
آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ دل درد و غم سے چور تھا۔ خود تڑپ رہے تھے ، اوروں کو تڑپا رہے تھے … یہاں تک کہ دادا کا جسم …آہ … ! پیارے دادا کا جسم قبر کی بھیانک کوٹھڑی میں چھپ گیا ، اور پھرہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گیا۔