طویل منصوبہ بندی
سابق صدر امریکہ جان ایف کینڈی نے ایک بار لاوٹے کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا اپنا ایک قصہ نقل کیا تھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے:
میں نے ایک بار اپنے باغبان سے ایک درخت کا پودا لگانے کے لیے کہا۔ باغبان نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ درخت بہت دھیرے دھیرے بڑھتا ہے اور اس کو پورا درخت بننے میں ایک سو سال لگ جائیں گے۔ میں نے جواب دیا: ایسی حالت میں تو ہم کو بالکل وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ تم آج ہی دوپہر کے بعد اس کا پودا لگا دو۔
ملک کی تعمیر وترقی ایک طویل المدتی منصوبہ ہے۔ افراتفری اور اجتماعی سطح پر بے شمار اسباب فراہم کرنے کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ جب ملت اپنی پوری شان کے ساتھ زندہ ہو اور وہ ایک طاقتور قوم کی حیثیت سے زمین پر اپنی جگہ حاصل کرے ۔ مگر جب اس قسم کا منصوبہ پیش کیا جاتا ہے تو کہنے والے فوراً کہہ دیتے ہیں : یہ تو بڑا لمبا منصوبہ ہے۔ اس کو پورا ہونے میں سو سال لگ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو ہمارا جواب صرف ایک ہے، جب ایسا ہی ہے تو ہمیں ایک لمحہ کے لیے بھی اپنا وقت کھونا نہیں چاہیے۔ ہم کو چاہیے کہ ہم آج ہی پہلی فرصت میں اپنا ’’درخت‘‘ نصب کر دیں۔
ایک طاقتور درخت ہمیشہ ’’سو سال‘‘ ہی میںتیار ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص طاقتور درخت کا مال بننا چاہتا ہو اس کے لیے سو سالہ باغبانی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر وہ ایسا کرنے کے بجائے سڑکوں پر نکل کر ’’درخت ستیہ گرہ ‘‘ شروع کر دے۔ یا کسی میدان میں جمع ہو کر ’’باغ ملت زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے لگے تو یہ ایک احمقانہ حرکت ہو گی جس سے نہ کوئی درخت اُگے گا اور نہ وہ باغ والا بنے گا ۔ اس کا واحد انجام صرف یہ ہے کہ وہ اس وقت کو مزید ضائع کر دے جو درخت اُگانے کے لیے اس کو قدرت کی طرف سے حاصل تھا۔ آپ کے پاس مکان نہ ہو اور آپ سڑک پر کھڑے ہو کر پھلجڑی چھوڑنے لگیں تو اس سے آپ شہر میں ایک مکان کے مالک نہیں بن جائیں گے۔ اسی طرح ملت کا نام لے کر کچھ لوگ سیاسی شعبدہ بازی کرنے لگیں۔ تو اس قسم کے شعبدوں سے ایسا نہیں ہو سکتا کہ زمین پرملت کا قلعہ کھڑا ہو جائے۔ ایک خطیب اپنے پرجوش الفاظ کے ذریعہ آناً فاناً ایک پنڈال کو شاندار کامیابیوں کے آسمان پر پہنچا سکتا ہے، مگر ایک حقیقی واقعہ کو ظہور میںلانا ایک ایسا صبر آزما کام ہے جو طویل منصوبہ بندی اور مسلسل جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔