جیسا عمل ویسا بدلہ
وہ اپنی بیوی کے ساتھ دائمی جھگڑے والی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ اپنی اہلیہ سے سختی سے پیش آتا تھا۔ وہ انتہائی سخت دل اور طبیعت کا تیز تھا۔ بیوی اس کی شدت اور سخت کشی سے بڑی مشقت اٹھایا کرتی تھی۔ ایک دن معمول کے مطابق میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا‘ سنگ دل خاوند نے ایک موٹا ڈنڈا پکڑا اور بیوی کو دے مارا۔ شدتِ ضرب سے بیوی مر گئی ۔ خاوند اسے قتل نہیں کرنا چاہتا تھا، بلکہ تادیب مقصود تھی، جب اس نے دیکھا کہ وہ مر گئی ہے، حیران و پریشان رہ گیا، اب کیا کرے؟ اس مشکل سے نجات پانے کا بہانہ سوچنے لگا، اس نجات کا کوئی راستہ نہ سوجھا، بالآخر اپنے ایک قریبی رشتہ دار کی طرف چل پڑا اور اسے سارا قصہ کہہ سنایا، تاکہ اس بھنور سے نکلنے کا کوئی راستہ معلوم کر سکے۔
اس کے قریبی رشتے دار نے اس سے کہا: سن! کسی خوب رو نوجوان کو تلاش کرو اور اپنے گھر ضیافت کے لیے اسے دعوت دو، پھر اس نوجوان کو قتل کر دو، اس کا سر کاٹو اور اس کی لاش اپنی بیوی کے پاس رکھ دو بیوی کے گھر والوں سے کہنا کہ میں نے اس نوجوان کو اپنی بیوی کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھا، مجھ سے ان کی بدفعلی برداشت نہ ہو سکی،چنانچہ میں نے دونوں کو یک لخت قتل کر دیا، اس طرح تو اس مصیبت سے گلو خلاصی کروا سکے گا اور ان کے سامنے ایک معزز آدمی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
جب خاوند نے اپنے قریبی عزیز کی بات سنی تو اسے راحت کا احساس ہوا، جلدی سے اپنے گھر کی طرف لوٹا، تاکہ پروگرام کو پروان چڑھا دے۔ اپنے دروازے پر بیٹھ گیا، تاکہ اپنا مدعا پا سکے، کچھ وقت کے بعد ایک خوبصورت اور دلکش نوجوان آیا، جس سے آثارِ نعمت ٹپک رہے تھے ۔ خاوند نوجوان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور خوش آمدید کہنے لگا۔ نوجوان اس کی باتوں سے ورطۂ حیرت میں گم ہو گیا، لیکن خاوند نے اصرار کیا کہ نوجوان ضرور اس کے گھر تشریف لائے، تاکہ وہ اس کی ضیافت کر سکے اور ساتھ ہی اسے گھسیٹ کر اندر لے گیا اور دروازہ بند کر دیا۔ نوجوان دہشت زدہ اور گھبرایا ہوا تھا۔ خاوند نے جلدی اور اپنے فعلِ شنیع کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ اس نے خوف زدہ نوجوان کو قتل کیا، پھر اس کا سر کاٹ پھینکا اور اس کے جسم کو اپنی بیوی کی لاش کے ساتھ اکٹھا کر کے رکھ دیا، جب بیوی کے گھر والے آئے اور دونوں لاشوںکو دیکھا اور خاوند نے خود ساختہ قصہ سنایا تو وہ اپنی ہی بیٹی کو اس قبیح فعل پر لعن طعن کر رہے تھے اور گالیاں دیتے جا رہے تھے۔ خاوند کے دل کو سکون آ گیا اور اس نے محسوس کیا کہ اس نے اپنے آپ کو یقینی موت سے نجات دلا دی ہے، اب وہ اپنے قریبی عزیز کو بلانے لگا جس نے اس کو اس خفیہ تدبیر اپنانے کا مشورہ دیا تھا۔
خاوند اس دوران اپنے گھر میں شاداں و فرحاں تھا، کیوںکہ سب اچھا ہو گیا تھا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی، جب دروازہ کھولا تو اچانک اس کا قریبی عزیز سے سامنا ہو گیا، خاوند نے اسے گلے لگایا، بوسہ دیا اور شکریہ ادا کرنے لگا اور اسے اندر لے گیا تاکہ ضیافت کر سکے، اس سے اس کے قریبی عزیز نے کہا: کیا منصوبہ کامیاب ہو گیا؟ خاوند نے کہا : یقیناً میں واضح طور پر کامیاب ہو گیا اور تدبیر کارگر ثابت ہوئی۔ یہ سب آپ کے حسنِ تفکر اور سلامتِ تدبیر سے ہوا ہے۔ قریبی عزیز نے کہا: کیا تو نے اپنا مطلوبہ ہدف پا لیا تھا؟ خاوند نے کہا: ہاں، بے شک میں نے ایک خوبصورت اور چاند چہرہ نوجوان پا لیا تھا۔ اس کے قریبی نے کہا: مجھے نوجوان دکھائو، جسے تم نے قتل کیا ہے۔ جب اس نے اسے دیکھا تو اونچی چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر گر پڑا، خوب رو مقتول دراصل اسی کا بیٹا تھا!اس چال باز نے اپنے قریبی کو مصیبت سے نکالنے کا حیلہ سوچا، چہ جائے کہ وہ اسے اپنے آپ کو عدالت میں پیش کرنے کی نصیحت کرتا یا اس کے بارے میں اطلاع دیتا، اس نے جرم پرمدد کی اور اس سے بھی بڑا جرم بتا دیا، چنانچہ اپنے ہی لخت جگر، نوجوان بیٹے کو ذبح کروا دیا اور اپنے اعمال کے شر میں واقع ہو گیا۔