نوجوان کا عبرت ناک انجام

اس واقعہ کے راوی ڈاکٹر ایمن اسعد عبدہ ہیں، وہ بیان کرتے ہیں:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں الکندی ہسپتال میں تعینات تھا۔ میں اپنے معمول کے رائونڈ پر تھا جس میں مریضوں کا حال احوال پوچھا جاتا، آیا وہ علاج سے مطمئن ہیں۔ اگر کسی مریض کو کوئی مسئلہ ہوتا تو اس کا بھی موقع پر جائزہ لیا جاتا۔ اس دوران انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بھی گیا۔ اس وارڈ میں موجود اکثر مریضوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہوتی تھی۔ اچانک میری نظر بیڈ نمبر 3 کے مریض پر پڑی۔ یہ ایک نوجوان تھا جس کی عمر بمشکل پچیس سال ہو گی ۔ اس کا نام محمد تھا۔ یہ ایڈز جیسے موذی مرض میں مبتلا تھا۔ اب اس کی بیماری اپنے آخری سٹیج پر تھی۔ اس کے بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اُسے چند دن پہلے ہی مراکش کے علاقے سے اس ہسپتال میں لایا گیا تھا۔ نجانے میرا دل کیوں اس مریض کی جانب کھنچا چلا جا رہا تھا۔ بظاہر اس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ میرا ہر روز ایسے مریضوں سے واسطہ پڑتا رہتا تھا۔ میں نے کبھی مریضوں کی ذاتی زندگی یا نجی معاملات میں مداخلت نہیںکی تھی۔ ہم صرف اتنی ہی تفصیلات پوچھا کرتے تھے جن کا تعلق علاج سے ہوتا تھا۔ لیکن اپنی روایت کے برخلاف میں اس نوجوان کے مفصل حالات جانناچاہتا تھا۔ ایک دن میں اپنے معمول کے کام نبٹانے کے بعد اس نوجوان کے پاس گیا ۔ میں نے اس سے گفتگو کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی بیماری کا اثر اُس کی زبان پر بھی تھا۔ وہ ایسے ٹوٹے پھوٹے بے ربط کلمات بول رہا تھا کہ میرے پلے کچھ نہ پڑا۔ میں نے ہسپتال کی انتظامیہ سے ایڈریس حاصل کر کے اس کی والدہ سے رابطہ کیا۔
اُس کی ماں کے لہجے سے معلوم ہوا کہ اُس کا تعلق لبنان کے ایک عرب قبیلے سے ہے۔ اُس کے باپ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ایک بڑا تاجر ہے ۔ میں نے اُس نوجوان کی والدہ سے رابطہ کیا اور لگی لپٹی رکھے بغیر اُسے بتایا کہ آپ کا بیٹا زندگی کے آخری ایام بسر کر رہا ہے۔
آدھے گھنٹے بعد نرس نے مجھے بتایا کہ اُس مریض کی والدہ آ چکی ہیں۔ وہ درمیانی عمر کی ایک ماڈرن خاتون تھی۔ اُس کے حلیے سے لگتا تھا کہ اسلام سے اُس کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ انتہائی مضطرب اور پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ اُس نے مجھ سے اپنے بیٹے کی صحت کے بارے میں پوچھا۔ میں نے تفصیل سے ساری صورت حال اُس کے سامنے بیان کر دی۔ یہ سن کر وہ زار و قطار رونے لگی۔ میں نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا: اب تو ایک ہی دروازہ باقی بچا ہے جہاں سے بہت بڑے بڑے معجزات رونما ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ تمہارے بیٹے کو شفا عطا فرمائے۔ اس خاتون نے دہشت زدہ ہو کر میری طرف دیکھا اور پوچھا: آپ نے کیا کہا: میں نے پھر کہا : اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کیجئے اور اپنے بیٹے کی شفایابی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر یں۔ وہ ہونقوں کی طرح منہ اُٹھائے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اچانک وہ مجھ سے پوچھنے لگی : کیا آپ مسلمان ہیں؟ میں نے کہا: الحمدللہ! میں مسلمان ہوں ۔ کہنے لگی: ہم بھی مسلمان ہیں۔
میں نے کہا: آپ کا بیٹا بڑی اذیت اور تکلیف میں ہے۔ آپ اس کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کیوں نہیںکرتیں؟ ممکن ہے اس طرح اس کی اذیت میں تخفیف ہو، اس نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا، رونا شروع کر دیا اور انتہائی آزردہ لہجے میں کہا: میں قرآن پڑھنا نہیں جانتی۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کچھ بھی نہیں؟ کہنے لگی: کچھ بھی نہیں، حتیٰ کہ چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی نہیں۔ میں نے کہا: تعجب ہے، پھر آپ نماز کیسے پڑھتی ہیں، نماز میں قرآن مجید کا کچھ نہ کچھ حصہ تو پڑھنا ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگی: ہم نماز ہی ادا نہیں کرتے۔
ہم لوگ صرف عید کے موقع پر عیدگاہ میں جاتے ہیں، لیکن میں ہر سال دو سال بعد لبنان میں اپنے آبائو اجداد کی قبروں پر جا کر دعا ضرور کرتی ہوں۔ میرے خاوند کو بالکل معلوم نہیں کہ میں ایک دیندار خاتون ہوں۔ اپنے خاوند کو اس لیے نہیں بتاتی کہ کہیں وہ مجھے اس سے بھی منع نہ کر دے۔
ڈاکٹر ایمن کہتے ہیں: میں نے دل ہی دل میں کہا: ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے۔ یہ خاتون نماز پڑھتی ہے نہ قرآن مجید کو جانتی ہے، پھر بھی کہہ رہی ہے : میں ایک دین دار خاتون ہوں ۔
میں نے اُس کے بیٹے کے متعلق پوچھا: میں نے اس کی تعریف کی لیکن ساتھ یہ بھی بتایا کہ گزشتہ سال اس کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی جو آہستہ آہستہ اس کے حواس پر چھاتی چلی گئی۔ غالباً اُسی سے یہ موذی بیماری اس کو لگی ہے۔ میں نے اُس خاتون سے پوچھا: آپ کا بیٹا نماز پڑھتا تھا؟ کہنے لگی: وہ تو نماز نہیں پڑھتا تھا، لیکن اس کا ارادہ تھا کہ آخری عمر میں حج کے لیے جائے گا۔
تھوڑی دیر کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ لڑکا سکرات الموت میں ہے۔ نرسیں اس کی حالت دیکھ کر دہشت زدہ تھیں۔ اس کی والدہ اس کے سرہانے بیٹھ کر رو رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ اس نوجوان کو کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ میں اس کے پہلو میں بیٹھ گیا اور بڑی اپنائیت اور محبت سے اُس سے کہنے لگا: لا اِلٰہ اِلااللّٰہ پڑھو۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے، لیکن کہہ نہیں پا رہا تھا۔ وہ بڑی اذیت اور تکلیف محسوس کر رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ اُس کا رنگ سیاہ پڑنے لگا ہے ۔ آخرکار بڑی مشکل سے اُس کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے: پلیز مجھے درد کش ادویات (Pain Killers)دی جائیں۔
میں نے پھر بڑے مشفقانہ انداز میں کہا: بیٹا !لا اِلٰہ اِلااللّٰہ کہو۔ یہ سن کر اُس کے ہونٹوں نے حرکت کی۔ میں نے التجا کی: یاالٰہی! یہ اب تو کہہ دے، مگر وہ انگلش میں کہنے لگا: I can’t – I can’t’’میں نے پڑھ سکتا، میں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ اُس کی نبض ڈوبنے لگی ۔ سانس رُک رُک کر آنے لگی۔ میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور بے اختیار رونے لگا۔ میں نے پھر کہا: بیٹا! اب بھی موقع ہے، کہہ دو۔ لیکن اب بھی اس کا ایک ہی جواب تھا: میں نہیںکہہ سکتا۔ آخر نبض رُک گئی ۔ سانس بند ہو گئی ۔ لڑکے کی والدہ اس کے سینے پر سر رکھے چیخ و پکار کر رہی تھی۔ لڑکے کے چہرے کو ایک سیاہ چادر نے ڈھانپ لیا تھا۔ میں اپنی ساری میڈیکل کی تعلیم اور ہدایات بھول چکا تھا۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
میں نے قریباً چیختے ہوئے اس کی والدہ سے کہا: اس ساری صورتحال کی ذمہ دار آپ ہیں۔ آپ نے اور آپ کے خاوند نے اللہ کی طرف سے دی گئی امانت کو ضائع کر دیا۔ والدہ کے پاس آنسو بہانے کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔ (اکثر من الف قصہ و قصہ‘ تالیف : عواض ھشام‘ ص: 291-288)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button