تبدیلی مذہب کیلئے اٹھارہ سال عمرکی شرط

(تحریر:ڈاکٹر عمر فاروق احرار)
جس طرح غیر مسلموں کو زبردستی اسلام قبول کروانا غلط ہے اسی طرح اپنی خوشی سے اسلام قبول کرنے والے پر پابندی اور قدغن لگانا بھی غلط ہے


سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، جبکہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ ابتدائی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اپنا منہ بولابیٹا بنایا


اسلام اپنے افکار و نظریات کو بزور طاقت مسلط کرنے اور اپنے مذہب و تہذیب میں دوسروں کوضم کرنے کی کوشش کرنے سے منع کرتا ہے،ارشاد خداوندی ہے :ترجمہ: دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے، سرکشی کے معاملہ میں ہدایت واضح ہو چکی ہے، جو معبودانِ باطل کا منکر اور اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اس نے مضبوط سہارا تھام لیا،جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔(البقرہ)اسی طرح دوسری جگہ ارشاد خدا وندی ہے کہ’’دین اسلام کے علاوہ دیگر تمام ادیان و مذاہب اللہ تعالیٰ کے نزدیک نا قابل قبول ہیں اور ان کے پیروکار آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے (جہنمی ) ہوں گے ‘‘۔(سورہ نساء)
اسلام کے محاسن کے سبب بڑی تعداد میں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں، جس کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ 2050ء تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا، مسلمان ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد امریکا، جرمن،اطالوی، پرتگالی، برطانوی، سری لنکن، چینی، فلپائینی، ویتنام، نیپالی، ہندی، اتھوپین،یوگنڈی، گھانا، مڈغاسکر اور کینیائی باشندوں کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فقط جرمنی میں ہر دوگھنٹے کے اندر ایک شخص اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتا ہے۔ یعنی ہر سال چار ہزار آدمی، 350 آدمی ہر مہینے مسلمان ہوتے ہیں۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے کئے گئے سروے کے مطابق فرانس میں ہر سال تین ہزار چھ سو لوگ مسلمان ہوتے ہیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل میں نوے سیکنڈ کی نشر کردہ فلم ‘‘میپ آف وارز’’ میں ماضی و حال کے نقشوں سے وضاحت کی گئی ہے ، عالم میں کونسا مذہب پچھلے پانچ ہزار سال میں ، کتنا پھیلا ہوا۔ ویڈیو میں اعداد و شمار کی مدد سے تہذیبوں کے درمیان تصادم کو واضح کیا گیا۔ اسلام، عیسائیت، یہودیت، بودھ ازم اور ہندو مت کے مختلف خطوں میں پھیلاؤ کو دکھایا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں موجود مختلف مذاہب اپنے ظہور سے لے کر کتنی صدیوں میں چہار عالم میں پھیل سکے، یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اور اسلام کا پیغام کس سرعت اور تیزی سے دنیا میں پھیلتا چلا گیا۔ ڈیلی میل ہی کی رپورٹ کے مطابق تمام مذاہب کے پیروکاروں میں عددی کمی کا رجحان ہے لیکن اسلام کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی۔ یہ حق ہے اور یہی عظیم راستہ ہے۔ یہی سچائی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جو لوگوں کے قبول اسلام کی بنیاد بنتی ہے۔ جس کی بنا پر وہ ہر مصیبت اور پریشانی کو جھیلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ مختلف ممالک میں مقدر قوتوں کا رویہ ان سے معاندانہ ہوتا۔ وہ عقوبت خانوں میں ڈالے جاتے ہیں، صعوبتیں دئیے جاتے ہیں، عدالتوں میں گھسیٹے جاتے ہیں۔ قتل کئے جاتے ہیں لیکن کوئی طریقہ انہیں صراط مستقیم سے ہٹا نہیں سکتا،کوئی حربہ ان کے قدم ڈگمگا نہیں سکتا۔ سب سے اہم اور ضروری نکتہ یہ ہے کہ دشمنان اسلام کی تمام تر سعی اور کشش کے باوجود دین کا پیغام پھیل رہا ہے۔ میڈیاکے میدان میں ان کی برتری کے باوجود لوگ اسلام کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ 1973ء میں مسلمانان عالم کی تعداد جو پچاس کروڑ تھی2011 ء میں ڈیڑھ ارب تک جا پہنچی۔ اس کی وجہ پیدائشی مسلمانوں کا بڑھنا نہیں بلکہ غیر مسلموں کا بڑی تعداد میں اسلام کی جانب رجحان اور قبول اسلام کی رغبت ہے اور یہ تعداد ان معاشروں میں بھی بڑھوتری کی طرف مائل ہے جہاں پیدائشی مسلمان بہت کم ہیں۔ مذکورہ بالا حقائق کے برعکس پاکستان جو اسلامی ملک ہے یہاں پر ایسا بل تیار کیا جا رہا ہے جو اگر پاس ہو گیا تو پاکستان میں لوگوں کا اسلام قبول کرنا مشکل بنا دیا جائے گا۔
"PROHIBITION FORCED CONVERTION BILL 2021” کے نام سے حکومت ایک بل پارلیمنٹ میں لانے کی لابنگ کررہی ہے۔ حالانکہ خود کومتی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سابق چیئرمین بھی اپنے دور میں اس بل کو غیر اسلامی اورغیرآئینی قرار دے چکے ہیں۔ دراصل بیرونی ایجنڈے پرکبھی ہمارے خاندانی نظام کی بربادی کے لیے گھریلو تشدد بل لایا جاتا ہے اورکبھی مذہب کا معاشرہ میں متحرک اورمؤثر کردار ختم کرنے کے لیے وقف املاک بل لا کر مرضی کے قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔ اب تبدیلی مذہب کے عنوان سے اٹھارہ سال سے کم عمرافرادپر قبول اسلام روکنے کے لیے قانون سازی کی مہم جاری ہے جو درحقیقت اسلام مخالف قوانین کو پاکستانی اکثریتی مسلم آبادی پر مسلط کرنے کی منظم منصوبہ بندی ہے،کیونکہ اگر اس مجوزہ قانون کو موجودہ صورت میںلاگو کیا جاتا ہے تو کوئی ایک بھی اٹھارہ سال سے کم عمر ِفرد قانوناً اسلام قبول نہیں کر سکے گا۔
بل کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کے بارے میں یہ نہیںسمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے، جب تک کہ وہ شخص اٹھارہ سال یا اس سے بڑا نہ ہو جائے۔جو بچہ بلوغت کی عمرکو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے،اُس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا اور نہ اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔ جبری مذہب کی تبدیلی میںملوث افرادکو پانچ سے دس سال تک سزا اورجرمانہ ہوگا۔اس بل میںایسی کڑی شرائط موجود ہیں کہ اب کم عمروں کے لیے اسلام قبول کرنا عملاً ناممکن بنا دیا جائے گا۔مذہبی جماعتوں نے اس بل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کا بل نہیں، بلکہ اسلام کو قبول کرنے سے جبراً روکنے کا بل ہے، یہ درست ہے کہ جبراً کسی شخص کو مسلمان نہیں بنایا جا سکتا، لیکن شریعت مطہرہ کی رُوسے جو فرد بھی باہوش وحواس ،بلاجبر و اکراہ اوربارضا و رغبت اسلام قبول کرتا ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس فردکوقبول اسلام سے روکے۔اگر جبراً مسلمان بنانا درست نہیں تو بالجبر اسلام قبول کرنے سے روکنا کہاں کا انصاف ہے۔یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے بھی مترادف ہے۔
اسلام ہرعمرکے افرادکے قبول اسلام کا خیر مقدم کرتا ہے۔ جہاں تک کم عمر افرادکے قبول اسلام کا سوال ہے تو اسلامی تعلیمات اور ہماری تاریخ اس کی شاہد ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، جبکہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ ابتدائی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اپنا منہ بولابیٹا بنایا۔ بچپن میں اسلام کے قبول کرنے کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ کم عمر نو مسلمین اسلام کی نعمت سے سرفرازہوئے تو اسلام نے ان کا مکمل تحفظ کیا۔ اُن کے لیے خصوصی احکامات جاری کیے اور اُن کے حقوق کا خاص خیال رکھا۔ مواخات مدینہ اس کی واضح مثال ہے۔ مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر سید کفیل شاہ بخاری نے اس بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اہل اقتدار جو ریاست مدینہ کا دعویٰ کرتے ہیں، اُنہیں اسلام کی ان زریں روایات سے سبق لیتے ہوئے قبول اسلام کرنے والے نومسلمین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے، اُن کی کفالت کا انتظام و انصرام کرکے اُن کی حوصلہ افزائی اوردل جوئی کا سامان کرنا چاہیے اورقرآن مجیدکے حکم کے مطابق اُن کی تالیف قلب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بل کی مزید ایک اورشق پر غورکیجیے کہ نو عمر اسلام قبول کرنے والے کواکیس دن اور اٹھارہ سال کے بعد اسلام قبول کرنے والے کو نوے دن کی مہلت دینا کہ وہ اپنے فیصلہ پر مزید غور و خوض کرے، دراصل مہلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت کے دوران نومسلمین اور ان کے خاندان والوں کو ڈرا دھمکا کر اسلام کو اُنہیں ترک کرنے پر مجبورکیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ اگر نوعمرکا اسلام قابل قبول نہیں تو پھر یہ بتایا جائے کہ اگر دو میاں بیوی قانون کے مطابق اسلام لے آئیں توکیا اس مجوزہ قانون کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ اُن کے بچے اٹھارہ سال کی عمرکو پہنچنے تک غیرمسلم ہی تصورکیے جائیں گے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے بھی مذہبی جماعتوںکے اس مؤقف کی تائیدکر دی ہے کہ تبدیلی مذہب کے لیے عمرکی قید نہیں رکھی جا سکتی۔لہٰذا اب حکومت کو بھی اپنے مؤقف میں بھی تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سید کفیل شاہ بخاری انسداد جبری تبدیلی مذہب بل کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تبدیلی مذہب بل قادیانیوں کی خوشنودی اور فتنہ قادیانیت کے فروغ کا سبب بنے گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button