قرب قیامت… مسلمان مالدار ہوں گے
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک مصعب بن عمیر آ نکلے، جن کے بدن پر صرف ایک چادر تھی، اور اس میں چمڑے کا پیوندلگا ہوا تھا، ان کا یہ حال دیکھ کر اور ان کا اسلام سے پہلے کا زمانہ یاد کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے، (کیونکہ حضرت مصعب بن عمیر اسلام لانے سے پہلے بڑے ملائم اور قیمتی کپڑے پہنا کرتے تھے) پھر ارشاد فرمایا کہ مسلمانو! اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا، جب صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلو گے، اور شام کو دوسرا جوڑا پہن کر گھر سے نکلو گے‘ اور ایک پیالہ سامنے رکھا جائے گا، اور دوسرا پیالہ اٹھایا جائے گا، اور تم اپنے گھروں پر (زیب و زینت کے لیے) اس طرح کپڑے کے پردے ڈالو گے جیسے کعبہ کو کپڑوں سے پوشیدہ کر دیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تب تو ہم آج کی نسبت بہتر ہوں گے (کیونکہ) عبادت کے لیے فارغ ہو جائیں گے، اور کمانے کے لیے محنت نہ کرنی پڑے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں تم اس دن کی نسبت آج ہی اچھے ہو (ترمذی) یعنی بظاہر اگرچہ مفلس ہو، لیکن ایمان کی دولت سے مالا مال ہو، اور اس زمانہ میں بظاہر مالدار ہو گے لیکن ایمان کے اعتبار سے غریب۔
اگر مذکورہ بالا روایت پر غور کیا جائے تو یہ آج کل کے زمانہ پر حرف بحرف پوری اترتی ہے، کیونکہ الحمدللہ آج مسلمانوں کی عیش و عشرت اور مالداری کا یہی عالم ہے کہ صبح کے الگ کپڑے اور شام کے الگ، کھانے میں کئی کئی ڈشیں، اور گھر کے اندر پوری پوری دیوار کے برابر پردے، اور بقول صحابہ کرام عبادت ہی میں اکثر وقت خرچ کر سکتے ہیں، لیکن افسوس اسی بات پر ہے کہ ہم بجائے اس کے کہ ان انعامات پر شکر بجا لاتے اور زیادہ سے زیادہ عبادت کرتے، گناہوں کی دلدل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ وہ بہتات کا زمانہ تمہارے لیے اچھا نہ ہو گا، آج ہی تم اچھے ہو کہ تنگدستی کے باوجود دین پر جمے ہوئے ہو۔
بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’خدا کی قسم مجھے مالدار ہونے کا ڈر نہیں، بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تمہیں دنیا زیادہ دے دی جائے اور تم دنیا میں اس طرح پھنس جائو جیسے وہ پھنس گئے تھے، پھر دنیا تمہیں برباد کر دے، جس طرح انہیں برباد کر دیا تھا۔‘‘
حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب بلند شہری اپنی کتاب علامات قیامت میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :
’’قابل غور بات یہ ہے کہ مالدار تو اس لیے دیندار نہیں کہ ان کے پاس مال ہے، لیکن تعجب ہے کہ آج کل غریب بھی دین سے اتنے ہی دور ہیں جتنے مالدار، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور وجہ یہ ہے کہ دینداری کا ماحول نہیں رہا، نہ مالدار گھرانوں میں، نہ غریبوں کے جھونپڑوں میں ’’فالی اللہ المشتکی‘‘(علامات قیامت ص ۲۷)
حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’یقیناً لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ صرف دینار و درہم ہی نفع دیں گے۔‘‘ (رواہ احمد)
صاحب المعات اس ارشاد کی تشریح میں لکھتے ہیں: یعنی اس زمانہ میں حلال کماکر ہی دین محفوظ رکھ سکیں، اور کسب حلال ہی انہیں حرام سے بچائے گا۔
حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب مدظلہم اس روایت کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ دین میں اتنے کمزور ہوں گے کہ اگر حلال نہ ملے تو تکلیف اور بھوک برداشت کر کے حرا م سے نہ بچیں گے، بلکہ حرام میں مبتلا ہو جائیں گے، اگر کسی کے پاس حلال مال ہو گا تو اسے حرا م سے بچائے گا، راقم الحروف کی یہ رائے ہے کہ حدیث میں یہ بتایا گیا کہ ہر معاملہ میں مال ہی سے کام چلے گا، دین بھی مال ہی کے ذریعے سے محفوظ رکھ سکیں گے، اور دنیا کے معاملات میں بھی مال ہی کو دیکھا جائے گا،کسی پارٹی کے صدر اور سیکرٹری کے انتخاب میں بھی سرمایہ دار ہی کی پوچھ ہو گی، قوم و خاندان کے چودھری بھی صاحب ثروت ہی ہوں گے، نکاح کے لیے مالدار مرد کی تلاش ہو گی ۔ غرض یہ کہ ہر معاملے میں مال دیکھا جائے اور مالدار ہی کو آگے رکھیں گے، جیسا کہ ہمارے موجودہ زمانے میں ہو رہا ہے کہ مالدار ہونا شرافت اور بڑائی کی دلیل بن گیا ہے۔ فقر و تنگدستی اگرچہ اختیاری نہیں لیکن پھر بھی عیب سمجھی جانے لگی ہے، روپے پیسہ کی ایسی عظمت دلوں میں بیٹھ چکی ہے کہ مالدار ہی کو بڑا اور عزت و آبرو والا سمجھا جاتا ہے، اور اسی حقیقت کے پیش نظر تنگدست اور مفلس بھی تنگدستی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ افسوس کہ جو فقر مومن کی امتیازی شان تھی وہ عیب بن کر رہ گئی ہے، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ فقر کی وجہ سے لوگ ایمان سے پھر رہے ہیں اور سرور دو عالم کے ارشاد:
’’فقر کفر بن جانے کے قریب ہے۔‘‘
کا مفہوم خوب سمجھ میں آ رہا ہے۔
حضرت سفیان ثوری فرماتے تھے کہ پہلے زمانے میں نیک لوگوں کے ماحول میں مال کو ناپسند کیا جاتا تھا، لیکن آج مال مومن کی ڈھال ہے، اگر مال نہ ہو تو یہ مالدار ہمارا (یعنی عالموں کا) رومال بنا دیں، یعنی جس طرح رومال کو میل صاف کر کے ڈال دیتے ہیں، اسی طرح تنگدست عالم کو مالدار ذلیل سمجھنے لگیں۔ پھر فرمایا کہ جس کے پاس مال ہو اسے چاہیے کہ مناسب طریقوں پر خرچ کرے، اور بے فکری سے نہ اڑائے کیونکہ یہ وہ دور ہے کہ اگر حاجت پیش آئے گی تو سب سے پہلے دین کو برباد کرے گا۔ (مشکوٰۃ)