باپ کی دعا کامیابی کا ذریعہ بن گئی
ایک آدمی بڑی تنگی اور کسمپرسی کے عالم میں تھا۔ ذریعۂ معاش کے لیے سرگرداں رہتا ‘ تاکہ اپنے والدین کی مدد کر سکے۔ جب دن کی مزدوری لاتا تو اس شرم سے کہ باپ اس کے ہاتھ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا ‘ اسے میز پر رکھ دیتا اور وہ جب بھی رکھتا ‘ اس کا والد یہ دعا دیتا:
’’الٰہی ! میرے بیٹے کو قرآن عطا فرما اور قرآن والوں میں شامل فرما۔‘‘
بیٹا بیس برس کا ہو گیا اور حصولِ رزق کے لیے دوڑ دھوپ کرتا رہا۔ ایک دن جب وہ اپنے کام سے واپس آ رہا تھا تو ایک عالم سے ملا جو اپنے علاقے کے مفتی تھے۔ عالم نے نوجوان سے کہا: کیا مصروفیات ہیں؟ وہ بولا: رزق کی تلاش میں ہوں۔ عالم نے کہا: کیا تیرے لیے ممکن ہے کہ ہفتے بھر سے ایک دن میرے لیے مختص کرے۔ وہ بولا: جی ہاں اور میری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہوں گی۔
وہ لگاتار عالم کے پاس چکر لگاتا رہا ‘ حتیٰ کہ صاحبِ علم ہو گیا اور بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا رہا‘ حتیٰ کہ وہ دن بھی آ گیا ‘ جب اس کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ بعنوان ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ کا مناقشہ تھا‘ جب اسے مناقشہ کے لیے دعوت دی گئی تو وہ بیٹھ گیا۔ اچانک اس کے شیخ اور استادِ گرامی وہاں موجود تھے‘ وہ ان کی ہیبت و احترام میں کھڑے ہو گئے ‘ پھر گویا ہوئے: جنابِ والا تشریف لائیں اور تمام حاضرین کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور بولے: اس نوجوان میں جو کتاب اللہ کی معرفت و علم ہے ‘ اس کے باعث میں خوفزدہ ہو گیا اور اس کی تعظیم و شان کو بجا لایا۔ نوجوان کی ہچکی بندھ گئی‘ شیخ بولے: ہم تمہاری عزت افزائی کر رہے ہیں اور تم روہے ہو؟ وہ بولا: مجھے اپنے والد کی دعا یاد آ گئی :
’’الٰہی میرے بیٹے کو قرآن عطا فرمائیے اور قرآن والوں میں شامل فرمائیے ۔‘‘ اس نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اسے قرآن مجید کے علم اور تفسیر کے اس مرتبہ عظمیٰ پر پہنچا دیا اور اس پر اپنی نعمتوں کو نچھاور کیا۔