ماں کی بات نہ ماننا، عمر بھر کا پچھتاوا بن گیا

میں انتہائی بد نصیب ہوں۔ میری حالت پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ میں نے زندگی بھر کبھی اپنی ماں کے حکم سے سرتابی نہیں کی۔ میری ماں جو کچھ بھی طلب کرتی، میں بلا چوں چرا اُس کے حکم کی تعمیل کر دیتا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھ جیسے وفا شعار اور ماں کے اطاعت گزار سے ایسی حرکت بھی سرزد ہو سکتی ہے جو میرے لیے زندگی بھر کے پچھتاوے کا سبب بن جائے گی۔ لیکن آہ! آج میری حسرت اور میرا افسوس کس کام کا؟ اب اس دنیا میں نہ میری ماں رہی، نہ اس کا پیار،اللہ اللہ! ماں کتنی بڑی نعمت ہے۔کسی نے سچ کہا ہے:
دنیا میں آ کے جس سے دیکھا نہ پیار ماں کا وہ پھول ہے خزاں کا!
اب اگر میں خدمت کرنا بھی چاہوں تو ماں کہاں سے لائوں؟ ہاں وہ ماں، جس کے قدموں تلے جنت ہے۔ جس کے حکم پر عمل کرنا عبادت ہے۔ جس کی ہاں میں ہاں ملانا بے شمار نیکیوں کا باعث ہے۔ جس کی طرف مسکرا کر دیکھ لینا بھی عبادت ہے۔

ہاں، اب میں اس کے سوا کیا کر سکتا ہوں کہ اپنا دردِ دل سنائوں اور آپ کو اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں چند نصیحتیں کردوں۔
میں انٹرنیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ میرے سامنے قرآن کریم کی بعض آیات کی تفسیر تھی۔ میں ان کا بغور مطالعہ کر رہا تھا اور ایک مسئلے میں الجھا ہوا تھا۔ میں ایک آیت کی تفسیر پر غور کر کے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے سامنے کئی اقوال آتے تھے مگر میرے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے کئی پہلوئوں سے ان آیات کا مفہوم سمجھنا چاہا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں اس گتھی کو سلجھانا چاہتا تھا۔ آج میں نے عزم کر لیا تھا کہ انٹرنیٹ سے اس وقت تک نہیں اٹھوں گا جب تک یہ شرح اچھی طرح میری سمجھ میں نہ آ جائے۔

مگر آج مجھے اپنے آپ پر اس قدر افسوس ہو رہا ہے کہ میں اسے الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میں اپنے مسئلے کو سلجھانے کیلئے انٹرنیٹ پر مختلف کتبِ تفسیر کے مطالعہ میں منہمک تھا، اس دوران میری ماں نے آواز دی مگر میرا دھیان اس کی آواز کی طرف نہیں گیا، اس لیے میں نے اس کا جواب نہیں دیا۔ لیکن اب اس کی آواز بلند ہو چکی تھی۔ اس کی آواز میرے کانوں تک آ رہی تھی۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی لیکن آج جبکہ میری ماں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی ہے، اس کی وہ آواز میرے کانوں میں مسلسل گونج رہی ہے۔ میری ماں مجھے آواز دیتے ہوئے کہہ رہی تھی:
’’بیٹا! میری تمنا ہے کہ تم میرے پاس آئو،بیٹھو،میں تم سے کچھ دل کی باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ پتا نہیں کیوں آج تم سے باتیں کرنے کو بہت جی چاہ رہا ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا، اس لیے چاہتی ہوں کہ میرے پاس بیٹھے رہو، میں تمہیں کچھ یادیں اور کچھ باتیں سناتی رہوں اور رات اسی طرح ڈھل جائے…….!۔‘‘

جب میں نے اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا تو وہ میرے کمرے میں داخل ہوئی جہاں میں کمپیوٹر پر بیٹھا مطالعے میں مگن تھا۔ وہ اب میرے پاس بیٹھ گئی۔ وہ کہہ رہی تھی:’’بیٹا! یہ کمپیوٹر چھوڑ دو۔ آئو میرے پاس بیٹھو۔ اس بڑھاپے میں نہ جانے کیوں تم سے اتنی باتیں کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ کمپیوٹر سے اٹھو قدم بڑھائو اور میرے ساتھ چلو…….!بہت ساری باتیں سنانی ہیں تمہیں…..۔‘‘

میں نے اپنی ماں سے کہا:’’امی جان! میں ایک آیت کی شرح تلاش کرنے میں کئی دنوں سے لگا ہوا ہوں۔ مسئلہ الجھا ہوا ہے۔ اس بارے میں علمائے تفسیر کے اقوال بھی سمجھ میں نہیں آ رہے۔ آج اگر میں یہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں تو علم کی بہت بڑی خدمت ہوگی اور آنے والی نسل مجھے دعائیں دے گی……..!!دیکھو نا یہ شرح…..!میں یہ عوام کے لیے تیار کر رہا ہوں۔ یہ کتنا اچھا اور کتنا مبارک کام ہے۔ یہ کتنی عظیم خدمت ہے؟…..دیکھو نا میں اس معمے کے حل میں کس طرح ڈوبا ہوا ہوں۔

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میری ماں کئی منٹ میرے پاس کھڑی رہی۔ وہ مجھے چھوڑنے کے لیے کہتی رہی مگر میں نے اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ہاں،ایک دو مرتبہ اس کی طرف پیار سے ضرور دیکھا لیکن میں بدستور اپنے کام میں مصروف رہا۔میری ماں مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ چند لمحوں بعد میرے کمرے کا دروازہ بند ہو گیا تو پتا چلا کہ میری ماں میرے پاس سے چلی گئی ہے۔میں سوچ رہا تھا کہ چلو! آج اگر میں اپنی ماں کے بلانے پر اس کے پاس نہیں جا رہا، اور وہ مجھ پر ناراض ہو رہی ہے تو کوئی بات نہیں، ان شا اللہ کل میں اسے منا لوں گا۔ میری ماں تو میری ساری لغزشیں معاف کر دیتی ہے،پھر یہ کونسا بڑا جرم ہے۔ کل جب میں اس سے معافی مانگوں گا تو وہ مجھے معاف کر دے گی۔ میں بھی تو دینی کام میں مشغول ہوں۔ کل میں اپنی ماں کے سامنے اس الجھے ہوئے مسئلے کو حل کر کے بتلائوں گا تو وہ کس قدر خوش ہو گی اور مجھے معاف کر دے گی۔ میرے دل میں یہ باتیں تھوڑی دیر کیلئے آئیں اور دور نکل گئیں۔ میں پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ میں اس قدر مشغول تھا کہ اس کے بعد مجھے ماں کے بارے میں کوئی بات ہی یاد نہیں آئی۔مجھے اتنا بھی یاد نہیں رہا کہ کچھ دیر پہلے میری ماں مجھے بلانے آئی تھی۔پھر میں دیر تک انٹرنیٹ پر بیٹھا رہا۔ جب میں نے مطلوبہ مسئلہ حل کر لیا پھر مجھے خیال آیا کہ اب ماں کے پاس چلنا چاہئے۔ میں کمپیوٹر بند کر کے اپنی ماں کے پاس حاضر ہوا۔ میں نے امی امی کہہ کر تین مرتبہ آواز دی۔ میری امی کی عادت تھی کہ چاہے وہ کتنی ہی گہری نیند میں ہوتیں، جونہی میں امی کہتا وہ فوراً بیدار ہو جاتیں۔ آج جب میں نے حسبِ معمول امی کہہ کر پکارا تو ان کی جوابی آواز نہیں آسکی…..!

مجھے جھٹکا سا لگا کہ امی کی خاموشی اتنی بے لچک کیوں ہو گئی؟ میں نے فوراً اپنی ماں کا ہاتھ چھو کر دیکھا کہ کہیں بخار تو نہیں۔ میرا گمان سچ ثابت ہوا۔ والدہ کا پورا جسم بخار کی شدت سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اور نورانی رخساروں پر آنسو ٹپک رہے تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔ امی جان سے کہا کہ ہمیں ہسپتال چلنا چاہئے۔ مگر انہوں نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کی حالت دیکھ کر معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بڑی اذیت میں ہیں۔

میں نے فوری طور پر اپنی ماں کو ہسپتال میں داخل کرایا۔ وہاں آناً فاناً ایمرجنسی وارڈ میں علاج شروع ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے پوری دیانت داری سے میری والدہ کا علاج کرنا شروع کیا۔ والدہ کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔ ایمرجنسی وارڈ میں جس رفتار سے علاج ہو رہا تھا اس سے کہیں زیادہ رفتار سے میری والدہ کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ ایک ڈاکٹر ایمرجنسی وارڈ سے باہر نکلا اور مجھے اپنے پاس بلا کر بولا:
ہماری ٹیم تمہاری ماں کا علاج کرنے میں مصروف ہے۔ ہر ڈاکٹر اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہے، مگر تمہاری ماں کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اب تک کی رپورٹ کے مطابق اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ہاں! اس کے جگر میں شدید درد ہے۔ وہ ابھی بول نہیں سکتی۔ نہ اس سے کلام کرنا مناسب ہے، اس لیے تم باہر ہی رہو۔ انتظار کرو اور دعا کرو۔ ہم حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں کہ مریضہ ٹھیک ہو جائے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب!کیا میں اندر اپنی ماں کے پاس جا سکتا ہوں؟ مجھے ماں ہی کے پاس رہنے دیا جائے تو اچھا رہے گا۔ میں قریب رہ کر اچھی طرح ان کی دیکھ بھال کر سکتا ہوں۔’’نہیں نہیں،تم اندر نہیں جا سکتے۔ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں، ورنہ مریضہ کا مرض مزید بڑھ جانے کا خدشہ ہے‘‘

ڈاکٹر کی بات مجھ پر بجلی بن کر گری۔ میں اندر ہی اندر گھٹن محسوس کرنے لگا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔ اپنے ضمیر کو ملامت کر رہا تھا کہ اپنی ماں کی بات مان کر اس کے ساتھ کیوں نہیں گیا۔ مجھ پر پڑھنے لکھنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کا ایسا کونسا بھوت سوار ہو گیا تھا کہ میں نے اپنی ماں کی بات نہیں مانی۔

میں ویٹنگ ہال میں انتظار کر رہا تھا کہ میری ماں کے حوالے سے کوئی خوشخبری ملے۔ رات زیادہ ہونے کی وجہ سے میری آنکھ لگ جاتی تھی مگر جلد ہی کھل بھی جاتی۔ذرا بھی آہٹ ہوتی تو میں اس کی طرف دیکھنے لگ جاتا کہ شاید میری ماں کے بارے میں کوئی رپورٹ آ رہی ہے۔ ایک دفعہ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تیزی کے ساتھ اس وارڈ کی طرف جا رہی ہے جس میں میری ماں تھی۔ میں بھی ان کے پیچھے دوڑ پڑا لیکن مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ابھی چند لمحے گزرے تھے کہ ڈاکٹر باہر نکلنے لگے۔ اسی دوران ایک نرس میرے پاس آئی اور کہنے لگی:’’اللہ تعالیٰ تمہیں زیادہ اجر عطا کرے اور تمہاری ماں کی مغفرت فرمائے۔‘‘

انا للہ وانا الیہ راجعون کیا میری ماں کا انتقال ہو گیا؟ یہ کیسے ہو گیا؟ میں تو اس کی ڈھیر ساری خدمت کرنا چاہتا تھا،یہ کیسے ہو گیا کہ وہ مجھے چھوڑ کر دور بہت دور موت کی سرد و سُنسان وادی میں چلی گئی۔
میں وارڈ میں داخل ہوا۔ ماں کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس کے ہاتھ پائوں چومنے لگا اور ماں ماں کہہ کر آنسو بہانے لگا۔ آہ…..! قدرت کا یہی معمول ہے ایسے موقع پر چاہے کوئی کتنی بھی ہمدردی جتائے،تسلیاں دے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ موت بہت بڑی حقیقت ہے۔
موت ہے ہنگامہ آرا قلزمِ خاموش میں!
ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button