بیوی کی خاطر ماں کو دکھ دینے والا بدبخت
اُس کا اس دنیا میں کوئی نہ تھا۔ سسرال میں نہ میکے میں، وہ اکیلی تھی۔ گود کا ایک بچہ ہی اس کی کل کائنات تھی، اس کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ اُس نے اپنے پیچھے ایک چھوٹے سے مکان کے علاوہ کچھ نہ چھوڑا تھا، مکان بھی قیمتی نہ تھا۔
شوہر کے انتقال سے صرف ایک مہینہ پہلے اُس کی گود ایک خوبصورت بچے سے بھری تھی، چنانچہ شوہر کی وفات کے بعد اُس کی ساری توجہ اپنے ننھے بچے کی طرف مرکوز تھی۔ ماں کی تمام تر کوششیں اس مقصد کے لیے وقف تھیں کہ کسی طرح اپنے بچے کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائے۔
وقت کے ساتھ اس کا بچہ کچھ بڑا ہوا اور سکول میں داخلہ لینے کے قابل ہوگیا۔ وہ دن اُس کے لیے انتہائی خوشی کا دن تھا جب وہ اپنے بچے کو پہلی دفعہ سکول لے کر گئی ۔ دن گزرتے رہے اور ماں نہایت مستعدی کے ساتھ اپنے بچے کو سکول پہنچاتی رہی۔ بالآخر وہ دن بھی آ گیا جب بچے نے پرائمری تعلیم حاصل کرکے سرٹیفکیٹ ماں کے ہاتھ پر لا کر رکھ دیا۔ ماں کو اُس دن جو خوشی ہوئی اس کا اظہار زبان و بیان کے کسی بھی اسلوب میں ممکن نہیں۔
ایک وقت آیا کہ اس کا اکلوتا بیٹا کالج کی تعلیم سے بھی فارغ ہو چکا تھا۔ کالج کی ڈگری اُس نے اپنے ملک کے دارالحکومت کے ایک مشہور کالج سے حاصل کی تھی۔ اتفاق سے وہ اسی شہر میں رہتا تھا۔ ایک غریب ماں کے لیے واقعی یہ بڑی خوشی کی بات تھی کہ اس کا بیٹاگریجویٹ ہوگیا ۔بیٹے کی خواہش تھی کہ وہ آگے بھی اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھے۔ اس کے نمبر بھی ماشاء اللہ اتنے اچھے تھے کہ سرکاری طور پر اسے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظیفہ کی پیش کش کی جا چکی تھی۔
اس کی ماں بھی اپنے لخت جگر کو بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنے پر راضی ہو گئی۔ ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہو۔ ایسی صورت میں اعلیٰ تعلیم ہی انسانی زندگی کی معراج ٹھہرتی ہے۔ آخر وہ دن بھی آ گیا جب بیٹے کی فلائٹ روانہ ہونی تھی۔ ٹیکسی دروازے پر کھڑی تھی ۔ ڈرائیور بار بار ہارن بجا رہا تھا۔ ماں اپنے لخت جگرکو تیار کرکے دروازے سے باہر نکلی۔
ٹیکسی کادروازہ بند ہوا اور پھر چند لمحے ہی گزرے تھے کہ ٹیکسی ماں کی نظروں سے اوجھل ہو کر ہوائی اڈے چلی گئی۔ ماں کو بیٹے کی جدائی سے بے حد صدمہ پہنچا۔ وہ گھر کے اندر گئی، بستر پر لیٹ گئی اور سسکیاں لے کر رونے لگی۔
بیٹا بیرون ملک جا چکا تھا ۔ اُس زمانے میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولتیںنہیں تھیں ۔ دور پردیس میں بسنے والے لوگوں کے لیے اپنے وطن یاگھر سے رابطے کی فقط ایک ہی سہولت تھی،یعنی ڈاک۔ ماں کو پڑھنا نہیں آتا تھا۔ وہ پڑوسیوں کی منت سماجت کرکے بیٹے کے نام خط لکھواتی۔ بیٹے کا جواب آتا تو پڑوسیوں ہی سے پڑھواتی۔ وقت بھی اُڑان بھر کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ دن سے ہفتہ،ہفتے سے مہینہ‘ مہینے سے سال،زندگی کے لیل و نہار لمبے لمبے ڈگ بھرکر اسی گزرتے چلے گئے۔
ایک دن بیٹے کا خط پڑوسی کے گھر آیا۔ اس میںبیٹے نے اپنی پی ایچ ڈی ڈگری کا تذکرہ کیا تھا۔ماں نے یہ خبر سنی کہ بیٹا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکاہے تو اس کی خوشی کاکیا پوچھنا!
دروازے پر دستک ہوئی۔ایک بار ،دو بار،تین بار…… ماں گہری نیند سو رہی تھی۔ برسوں بعداسے آج اچھی طرح نیند آئی تھی۔ دستک کی ہلکی ہلکی آواز اس کے کانوں تک نہیں پہنچ پائی۔ اس نے پہلے کی نسبت زور سے دستک دی ۔ جسے سن کر اچانک ماں کی آنکھ کھلی اور وہ بے تابی سے دوڑتی ہوئے دروازے پر پہنچی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ایک خوبرو نوجوان انگریزی لباس میں ملبوس کھڑا تھا۔ ماں نے یکدم بیٹے کو سینے سے لگا لیا ۔ پھر کیا تھا؟ بیٹا بھی آنسو بہا رہا تھا اور ماں کے آنسو تو رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
کچھ دیر بعد ماں بیٹا گھر میں بیٹھے چھ برس کی لمبی جدائی اور پھر اس دوران رُونما ہونے والے حالات و واقعات پربے صبری سے باتیں کررہے تھے۔ماں اپنے بیٹے سے طرح طرح کے سوالا ت کر رہی تھی۔
بیٹا بھی بوڑھی ماں کو جدائی کے ماہ وسال کی سرگزشت سناتا رہا۔
اب حالات نے پلٹا کھایا۔ بیٹے کومناسب نوکری مل گئی۔اس کی ماہانہ آمدنی بھی کافی تھی۔ پڑھنے لکھنے کے بعدبیٹے کا مزاج اپنی بوڑھی ماں سے یکسر مختلف ہو چکا تھا۔چند مہینے اس ٹوٹی پھوٹی موروثی رہائش گاہ میں گزارنے کے بعد بیٹے نے ماں کی اجازت سے مکان فروخت کر دیا اور شہر کے ایک اچھے علاقے میں بنگلہ خریدلیا۔
اس کے بعد ماں بیٹا اس بنگلے میں منتقل ہو گئے۔ ماں کو اب بیٹے کی شادی کی فکر تھی ۔ دورانِ گفتگو اُس نے ایک لڑکی کا نام لیا جو انتہائی خوش اخلاق،باکردار ، خوش رنگ ، خوش شکل ، فرمانبردار ، اطاعت گزار اور خدمت گزار تھی۔ کئی ماہ سے ماں نے اُس لڑکی کو اپنی نگاہ میں رکھا ہوا تھا اور دل ہی دل میں اپنے بیٹے کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ مگر وہ لڑکی ماڈرن زمانے کی لڑکیوں کی طرح زرق برق لباس کی شوقین اور بازاروں میں گھومنے پھرنے والی نہ تھی بلکہ شرم و حیا کی پُتلی تھی۔ چنانچہ ماں نے بیٹے کے سامنے اپنی خواہش کااظہار کرہی دیا۔
بیٹا ماں کاانتخاب جان کر بے پروائی سے بولا:’’چھوڑو بھی ماں!آخرشادی کی اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ ابھی وقت ہے، کہیں نہ کہیں شادی ہو ہی جائے گی۔‘‘
وقت گزرتاگیا ، ماں بیٹا ایک ہی چھت کے نیچے زندگی بسر کررہے تھے۔ ایک دن بیٹے نے ماں سے شادی کی خواہش کا اظہارکر دیا۔اُس نے ماں کو ہونے والی بیوی کے بارے میں بتلایا جس کا اس نے خود انتخاب کیا تھا۔ یہ لڑکی ایک بڑے باپ اور نامور خاندان کی بیٹی تھی۔ چنانچہ دھوم دھام سے شادی ہوئی اور بنگلے میں حسن کی ملکہ جلوہ افروز ہو گئی۔
لڑکی بڑے باپ اور نامور خاندان کی ہونے کی وجہ سے اسی مزاج کی حامل تھی جو عام طور پر ایسے خاندان کی لڑکیوں کا ہوتا ہے۔غرور،تکبر،دوسروں کو حقارت آمیز نگاہ سے دیکھنا۔
بیٹا جب بھی اپنی بوڑھی ماں سے اپنی بیوی کے بارے میں پوچھتا کہ بیوی کا اُس کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟ وہ میری عدم موجودگی میں تمہاری خدمت کرتی ہے یا نہیں؟ تو ماں کا صرف ایک ہی جواب ہوتا: ’’اچھی بہو ہے بیٹا‘ میرے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتی ہے۔‘‘ ماں بیٹے سے بہو کے بارے میں یہ سب کچھ اس لیے کہتی تاکہ بیٹے کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔
یہ سلسلہ چلتا رہا، بیٹابھی اب ماں میں زیادہ دلچسپی نہیںلے رہا تھا۔آفس سے آتا، بیوی سے بات چیت کرتا، کھا پی کر سو جاتا اور صبح ڈیوٹی پرروانہ ہوجاتا۔ یہی اس کاروزانہ کا معمول تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے دل سے ماں کی محبت زائل ہوتی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُسے رات دن میں ماں کا خیال بھی نہیں آتا تھا۔ ایک دن وہ آفس سے دو پہر کو ہی واپس آ گیا۔
اُس دن بیوی کی سہلیاں اُس کے گھر ضیافت پر آنے والی تھیں۔ اُس کی نگاہ ماں پر پڑی جو باتھ روم میں اپنے کپڑے خود اپنے ناتواں ہاتھوں سے دھو رہی تھی۔وہ باتھ روم کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ ماں کپڑے صاف کرنے میں مشغول تھی۔ اُس کی بیوی بھی اُس کے پیچھے اپنی زلفیں لہرا رہی تھی۔ اُس نے ماں سے مخاطب ہو کر کہا:
’’میں تم سے یہ کہنے کے لیے آفس سے جلدی آیا ہوں کہ میری بیوی کی سہلیاں گھر آنے والی ہیں، ہمارے گھر میں اُس کی دعوت ہے۔اس لیے تم میری بیوی کی شان و شوکت کا خیال رکھتے ہوئے آج کوئی اچھا لباس پہن کر اُن کااستقبال کرنا، اور ہاں! ہال میں اُن کے ساتھ بیٹھنے کی کوشش نہ کرنا ،یہ میری اور میری بیوی کی عزت کاسوال ہے۔‘‘
ماں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اسے اپنے کانوں پریقین نہیں آ رہا تھا کہ آج اس کواپنے اُس بیٹے سے کیا کچھ سننے کومل رہا ہے، جس کی تعلیم و تربیت میں نجانے اُس نے کتنا خون پسینہ بہایا تھا۔اُس نے اپنے چند کپڑے پلاسٹک کی ایک تھیلی میں رکھے اور گھر سے باہر نکل گئی۔ بنگلے پر الوداعی نظرڈالی ۔اس کے آنسوٹپک پڑے۔پھر اس کے دل سے یہ آہ اور زبان سے یہ جملہ نکلا:
’’اللہ تجھے معاف کرے بیٹا! اللہ کی قسم !میں نے تیرے اور تیری بیوی کے لیے ہمیشہ بھلائی کا کام کیا ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے یاد نہیںکہ میںنے تیری بیوی کوکبھی کوئی تکلیف دی ہو۔اللہ تم سب کو معاف فرمائے بیٹا۔‘‘اورپھر وہ کسی نامعلوم منزل کی طرف چل پڑی۔
کئی مہینے بیت گئے ، بوڑھی ماں کبھی اس کے در پر کبھی اُس کے درپر، کبھی ایک کے گھر کبھی دوسرے کے گھر اپنی زندگی کے دن گزارتی رہی۔ وہ گاہے بگاہے لوگوں سے اپنے بیٹے کی خیریت بھی دریافت کرتی رہتی تھی۔
دن گزرتے گئے۔ بہو بیٹا ماں کی یاد سے غافل ہوتے چلے گئے۔ اب انہیں بھول کر بھی ماں کی یاد نہیں آتی تھی۔ اس واقعے کو کئی سال گزرچکے تھے۔ اچانک بیٹے کو کوئی بیماری لاحق ہوئی۔ دیکھنے میں تو یہ عام سی بیماری لگ رہی تھی۔ ایک کلینک کا ڈاکٹرعلاج میں کامیاب نہ ہو سکا تواُس نے اُسے ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔بیوی نے اُسے ہسپتال میں داخل کرا دیا۔ اُدھر ماں کو کسی نے بیٹے کی نازک حالت کے بارے میں بتلایا تو وہ تڑپ اُٹھی۔ اس نے فوراً ٹیکسی کرائے پر لی اور ہسپتال پہنچ گئی۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے۔ ماں کی ممتا اوراس کی محبت کی مثال اس دنیا میں کہاں مل سکتی ہے؟ بیٹے کی بیماری کے بارے میں جب سے اس نے سنا تھا، بے چینی ہو گئی تھی اور بیٹے سے ملاقات کے لیے تڑپ رہی تھی۔ مگر بہو کے کہنے پر ہسپتال کے اسٹاف نے اسے بیٹے سے ملنے نہ دیا۔
ایک مدت تک ہسپتال میں علاج چلتا رہا، پھر ڈاکٹروں نے کہا کہ مریض کو گھر لے جائیں اور وہیں علاج کریں ۔ گھر میں علاج چلتا رہا مگرعلاج میں کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی۔ جب اُس کا بینک بیلنس ختم ہو گیا تو گھر کی اشیاء فروخت کرنے کی نوبت آگئی۔ ادھر بیوی بھی خدمت کرتے کرتے پریشان ہو گئی۔ وہ بات بات پرشوہر پر ٹوٹ پڑتی اور جلی کٹی سناتی تھی۔ لاچار شوہر، بستر پرپڑا بیوی کی باتیں برداشت کرتا رہتا تھا۔
ایک دن بیوی نے غصہ میں آ خر کہا: ’’بس !بہت ہو گیا۔ جب سے میں نے تمہارے گھر میں قدم رکھا ہے ، مشکلات اور پریشانیوں کی چکی میں پس رہی ہوں۔ کچھ دنوں تک تمہاری ماں کو جھیلتی رہی۔ اب تمہاری بیماری جھیل رہی ہوں۔ اب میرا اور تمہارا ساتھ نہیں نبھ سکتا۔ مجھے طلاق چاہیے۔ تم نے سنا نہیں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔مجھے طلاق چاہیے، آج اور ابھی چاہیے۔‘‘ بیوی کی بات سن کر اُسے یوں لگا کہ جیسے کسی نے اس کے چہرے پر آہنی تھپڑ رسید کر دیا ہو۔
اس نے بیوی کے مطالبے پر فوراًطلاق نامہ تیار کرایا او رطلاق ہو گئی۔ طلاق کے بعد اس کی صحت دن بدن گرنے لگی۔ اب اسے اپنی ماں کی یادستانے لگی۔ گرتی ہوئی صحت اور مفلسی کی حالت میں اسے اپنی ماں کی ضرورت بہت شدت سے محسوس ہوئی۔ روئے زمین پر صرف ایک ہی ہستی تھی جو اسے زندگی کی طرف لا سکتی تھی اور وہ اس کی ماں تھی۔
لیکن ماں… اللہ جانے وہ کہاں گم ہو چکی تھی۔ عرصۂ دراز سے لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ خبر نہ تھی۔ وہ ماں کی تلاش میں سرگرداں شہر کے گلی کوچوں کی خاک چھانتا رہا۔ دَر دَر جاتا اور ’’ماں ماں‘‘ کی رٹ لگاتا۔ایک دن وہ ایک محلہ کی مسجد کے پاس سے گزر رہا تھا۔ مغرب کا وقت آن پہنچا۔ وہ اُسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے رُک گیا۔ مسجد میں داخل ہوا تو اُس کی نگاہ ایک بوڑھی خاتون پر پڑی جو ہاتھ میں کاسۂ گدائی لیے کھڑی تھی اور نمازیوں سے بھیک مانگ رہی تھی۔
یہ اُس کی وہی ماں تھی جس نے اسے پال پوس کر بڑاکیا تھا اور اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے نہ جانے کتنی مصیبتیں جھیلی تھیں۔ وہ ماں جس نے بیٹے کو پڑھا لکھا کر بڑا افسر بنایا تھا اوریہ تصور کر بیٹھی تھی کہ اُس کے درد کا داماں ثابت ہوگا لیکن آج وہ حالات کے دوراہے پر کاسۂ گدائی لیے کھڑی تھی اور مسجد کے سامنے بھیک مانگ رہی تھی۔
بیٹے کو بڑا جھٹکا لگا وہ فوراً ماں کے قدموں میں گر گیا اور رورو کر معافی مانگنے لگا۔ پھر اُس نے ماں کا ہاتھ پکڑا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہ راہ چلتا جاتا تھااور باآواز بلند کہتا جاتا تھا:
’’اللہ کی لعنت اور پھٹکار ہوایسی بے وفا بیوی پر جس نے مجھے ماں جیسی عظیم ہستی سے جدا کر دیا۔ لعنت ہو میری پی ایچ ڈی ڈگری پر جس نے میرے دل سے میری ماں کی محبت نکال دی۔ لعنت ہو اُس بنگلے پر جس نے مجھے ماں سے بے گانہ کر دیا۔ لعنت ہو میری بھاری تنخواہ پر جس نے میرے دل کو اندھا کرکے ماں کی عظمت شناسی چھین لی۔‘‘
گھر پہنچ کر وہ ہچکیاں لے کر رونے لگا۔ اس نے ماں کے پاؤں پکڑے اور معافی مانگی۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے، اُس کے جذبۂ محبت کی مثال کہاں مل سکتی ہے۔ اُس نے بیٹے کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا اور کہنے لگی: ’نہیں بیٹا! کوئی بات نہیں، مجھے تم سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔‘‘