شوہر کے مال سے بیوی کا خفیہ صدقہ کرنا

ایک ستر سالہ شخص کافی عیال دار تھا اور ساتھ میں فقیر بھی تھا،لیکن انتہائی عبادت گزار اور نیک تھا،پانی کھینچنے کا کام کیا کرتا تھا،جو بہت ہی زیادہ مشقت کا کام تھا، پہلے وقتوں میں پانی کنوئوں،چشموں،وادیوں اور نالوں سے حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ آدمی برتنوں میں پانی بھر بھر کر لوگوں تک پہنچایا کرتا تھا۔ جس آدمی کا یہ پانی بھرا کرتا تھا،اس کی بیوی بہت ہی نیک تھیں اور اس کے ساتھ بہت ہی احسان کا معاملہ کیا کرتی تھیں۔ روزانہ جب وہ پانی لے کر آتا اور پانی انڈیل دیتا تو یہ عورت کچھ نہ کچھ گندم اس کے برتن میں ڈال دیا کرتی اور اس(نفلی صدقہ) کا اجر اپنے خاوند کو پہنچایا کرتی تھی۔اس عورت کے پڑوسیوں نے کسی پرانی دشمنی کی وجہ سے بوڑھے خادم کے خلاف شوہر کے کان بھرے تو اس نے دوسرے دن سے اس بوڑھے کی نگرانی شروع کر دی،بوڑھا اپنے مقررہ وقت پر جب پانی لے کر پلٹا اور پانی انڈیل کر جب جانے لگا تو خلاف عادت گھر کے مالک کو آج دروازے پر پایا،وہ حیران رہ گیا کہ یہ آج یہاں کیسے؟
مالک مکان نے کہا:’’برتن میں کیا ہے؟‘‘
بوڑھا:’’سارے برتن فارغ کر چکا ہوں اور اس میں کچھ پانی ہے جو میں اپنے لیے لے کر جاتا ہوں۔‘‘
مالک مکان:’’اسے ذرا انڈیلنا!‘‘
وہ ڈرگیا اور بے چینی سے آگے پیچھے ہونے لگا کہ وہ کیا کرے؟ اور اس سے بھی زیادہ وہ اس سے پریشان تھا کہ مالک کو یقیناً پتا لگ گیا ہے کہ برتن میں پانی کے بجائے گندم ہے۔
مالک مکان نے جب اس پر اضطرابی کیفیت کو دیکھا تو اُس سے کہا:
’’بچے ہوئے پانی کو گھر کے صحن میں چھڑک دو!‘‘
یہ سننا تھا کہ اس کی حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا کہ وہ کیا کرے؟ کیونکہ اس مالک نے تو اس کی سوچنے اور حیلہ کرنے کی تمام راہیں بند کر کے رکھ دی ہیں۔ بے بسی میں اس بوڑھے نے اللہ تعالیٰ کو پکارا کہ اس مصیبت سے تیرے علاوہ کوئی بھی نہیں نکال سکتا،پھر اس نے چند اشعار پڑھے،جن کا مطلب یہ ہے:
’’اے تدبیریں کرنے والے!اس بوڑھے ساقی کو بچانا تیرے ہی ذمہ ہے،اس بندے کے لئے کشادگی پیدا کر جس پر سوچ و بچار کی تمام راہیں مسدود(بند) ہو گئی ہیں اور وہ حیران و پریشان ہے۔‘‘
وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے مشکیزے کا منہ کھولنے کیلئے کھڑا ہو گیا اور جوں ہی اسے انڈیلا تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا کہ صاف شفاف پانی باہر آ رہا ہے،اس منظر کی وہ تاب نہ لا سکا اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا،لوگ اسے ہوش میں لانے کیلئے اس پر چھڑکنے لگے،یہاں تک کہ اسے افاقہ ہو گیا۔
مالک مکان نے اس سے دریافت کیا:’’کس بات سے آپ اتنا خوف زدہ ہوئے،جو بے ہوشی طاری ہو گئی؟‘‘
بوڑھا:’’حقیقت یہ ہے کہ آپ کی بیوی نے اس مشکیزے میں سرخ گندم ہی رکھی تھی،مگر جب انڈیلا گیا تو پانی نکلا۔ اس بات نے حیرت زدہ کیا اور خدائی امداد کو دیکھ کر مجھ پر وجدان کی کیفیت طاری ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے بندوں کو پاک کرنے کا انتظام کرتا ہے۔‘‘
تب مالک مکان پر بوڑھے اور اپنی بیوی کی سچائی کی حقیقت آشکارا ہوئی اور اس نے جان لیا کہ یہ دونوں ہی سچے ہیں اور ان کی نیت میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
ادھر دوسری جانب اس کی بیوی بھی روتی ہوئی سجدہ ریز ہوگئی۔ خاوند نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا:
’’میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اس میں گندم رکھی تھی، مجھے ڈر تھا کہ اگر آپ کو پتا چل گیا تو مجھے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
خاوند نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا:
’’اللہ تعالیٰ سے میں دعا گو ہوں کہ وہ میرے لیے تمہارے اندر برکتیں رکھے اور میرے ذریعے سے تمہیں بھی برکتیں نصیب فرمائے اور میں اپنا مال تمہارے سپرد کر رہا ہوں کہ جس طرح تم چاہو خرچ کر سکتی ہو۔
بیوی شوہر کے مال سے جب کوئی چیز صدقہ کرے تو پہلے شوہر کو بتا دے تاکہ بعد میں بدمزگی نہ ہو اور شوہر بھی اطمینان ہو جائے کہ میرا مال صحیح جگہ لگ رہا ہے۔ اور شک و شبہ سے بھی حفاظت ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ کسی بھی مسلمان کا مال اس کی اجازت اور اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button